تبلیغی جماعت اور طالبان

TJ

از۔ عامر لاہور(حقیقیت پسند) مولانا طارق جمیل۔ دینی فہم علمی ،تاریخی ،فکری طور پر بھی زیادہ سے زیادہ اوسط ،عمدہ فصاحت و بلاغت ،اپنی باتوں کو پر کشش بنانے کے لئے آنسوؤں کا سہارا لیتے ہیں .جذبات بطور ہتھیار استمعال کرتے ہیں .قرآن اور حدیث کا علم تو قرات، تلاوت اور کوٹیشن تک خوب ہے ، مگر اسکا فہم اور حکمت واہ واہ اور ہائے ہائے سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ شاید ان کے پاس سب ہے لیکن وقت کی قید سے آزاد رہ جانے والا علم موجود نہیں ہے۔

ان کی شخصیت میٹھی، پر کشش، نرم سی لگتی ہے .چال ڈھال اور بول چال میں ایک پارسائی اور تقدس کا احساس کرایا جاتا ہے ، پھربار بار اپنے آپ کو گناہ گارکہہ کر اس کو مزید تقویت دی جاتی ہے۔ وہ اسلام کو ظاہری عبادات اور رسم و رواج تک محدود کرنے والی سب زیادہ بڑی اور ذمہ دار شخصیت ہیں۔ خوش گمانی ہے کہ یہ دانستہ نہیں کیا گیا لیکن کج علمی اور غور و فکر کی کمی کا نتیجہ ضرور ہو سکتا ہے۔ مشہور شخصیات کو تبلیغی جماعت، اور اسکے اثر و رسوخ کے لئے ایک حکمت عملی کے تحت استعمال کیا گیا۔ یوں عوام اور خواص میں تبلیغی جماعت کااثر و نفود بڑھا۔

وہ قرآنی فہم اور سیرت کی روح کو چھوڑ کر قصے، کہانیوں، وقتی سہارا نما وظائف، ضعیف اور تراش خراش کی گئی احادیث اور ظواہر پر ہی زیادہ فوکس کرتے ہیں۔ پورا تبلیغی گروہ بھی اسی نہج پر چلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہر کوئی ایک دوسرے کی فوٹو کاپی ہے۔ اسلام کا مقصد اگر سارے انسانوں کی شکلیں اور حرکات ایک جیسی کرنا تھا تو الله سب کو ایک جیسا ہی بنا دیتا ،سب کے مزاج بھی ایک جیسے ہی کر دیتا۔ یعنی دوسرےالفاظ میں یا تو دین حلق سے اترا نہیں یا اسکی اہمیت اور افادیت کو دانستہ اپنی کم فہمی کی بنا پر محدود کیا گیا ہے۔ نتیجتاً ایک منافق معاشرے کی راہ ہموار کی گئی۔ پچھلےبیس، پچیس سال تبلیغی جماعت کے عروج کے رہے ہیں اور اسی عرصے میں معاشرتی اخلاقی گراوٹ، مکروہ کمینگی اور منافقت میں اضافہ ہی دیکھا گیا۔ گھروں، دکانوں سے لوگوں کو اٹھا کر گلٹ اور خوف کو ہتھیار بنا کر لوگوں کو قائل کر کے انھیں بطور مارکیٹنگ ٹول اسی طرح آگے استمال کیا گیا ہے۔ اعمال کو کسی کاروباری یہودی، ہندو بنیا کی طرح ثواب و گناہ اور ایک جمع ایک دو کی طرح لوگوں کے اعصاب پر سوار کیا گیا جس نے کسی بھی عمل کی بنیادی شرط خلوص، جو مطلوب خدا ہے کو سرے سے ہی غائب کر دیا۔ یوں عمل اور نیکی جو خدا کے لئے ہونی چاہئے اسکا فوکس الله پر کم اور انسان کی اپنی ذات، فائدے، جنت، حوروں پر زیادہ مرکوز ہو گیا۔ تبلیغ جو ایک سپیشلائزڈ شعبہ ہے اسے غیر معیاری لونڈے لپاڈوں، جاہل لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کی ذمہ داری بھی مولانا کو بطور فکری امیر جماعت اٹھانی ہو گی۔ باوجود اس سب کے انکی شخصیت کا مجموعی طور پر ایک مثبت تاثر ابھرتا ہے۔ انکی شخصی خوبیاں بھی بے پناہ ہیں۔ ان کی شخصیت کا رعب بھی ہے اور عمدہ کمیونیکیشن سکلز ہیں۔ اپنی بات کو دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں اور پڑھے لکھے بھی معلوم ہوتے ہیں۔ انکی نیت پر بھی شک نہیں کیا جا رہا لیکن علمیت اور فکر اس لیول کی نہیں کہ آج کے زمانے کے مسلمانوں کی دینی، فکری اور علمی قیادت کا فریضہ سر انجام دے سکیں۔ مستقبل کی وقت کی دھول انکی سوچ و فکر کو صرف انکی جماعت اور اسکے پیرو کاروں تک محدود کر دے گی۔

مولانا ماشاللہ کسی بھی مشکل سوال اور معاملے کی جانب نہیں آتے۔ تحریک طالبان پاکستان کے مظالم اور دہشت گردی پر، مولانا صاحب نے چوں بھی نہیں کی۔ چپ کر کے اپنی میٹھی میٹھی تقریریں کیں ،آنسو بہائے اور بس۔ کیا ایک علمی، مذہبی شخصیت کا یہ فرض نہیں کہ وہ ابتلا آنے پر لوگوں کی رہنمائی کرے؟ انہیں درست سمت کی جانب نشاندہی کر کے آگاہ کرے؟ یہاں تو مولانا اور انکی پوری ٹیم چلوں کی اوڑھ میں چھپ کر بیٹھ گئی۔ خلافت ،مسلمانوں کے زوال، معاشرے کی بڑھتی منافقت، اعمال اور ذہن کی پستی، اس جانب لوگوں کی زیادہ توجہ نہیں کرائی جاتی کیونکہ پورے تبلیغی جماعت والوں کے پاس اس درجے کی عقل و فہم کی شدید کمی ہے۔ اگر کوئی اس جانب راغب بھی کرے تو چند جملے پھینک کر سمجھا جاتا ہے کہ اپنا فرض ادا کر دیا۔ حقیقت ہے اکثر کو تو کچھ شعور ہی نہیں ہے۔ جن کو ہے وہ اپنا پبلک ایمج سافٹ رکھنے کے چکر میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں ۔عمران خان سمیت ہر حکمران کے ساتھ مولانا صاحب نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب طاغوت کی طاقتوں اور حکمرانوں اور عوام کی اعمال کی برائی بیان کی جاتی ہے۔ بھائی جب آپ خود موقع آنے پر منہ میں تالے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں تو عوام سے کیا توقع رکھی جائے؟ ہر سال گڑگڑا کر دعا مانگی جاتی ہے جس کی عملی برکت سے پاکستان اور علم اسلام ابھی تک محروم ہیں۔ بڑی بڑی مشہور شخصیات ،جیسے عامر خان،عمران خان ،وینا ملک سے ملاقاتوں کو ایسے پروجیکٹ اور اپنایا جاتا ہے جیسے یہ شخصیات پہلے کافر تھیں اب کہیں جا کر مسلمان ہوئی ہیں۔ یہ تبلیغی جماعت اور مولانا کے ٹرافی کبنٹ میں اضافے اور کامیابی اور لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش زیادہ لگتی ہے۔ اپنی بھونڈی شہرت کیلئے تعلیمی اور مذہبی ان پڑھ کرکٹرز کو کسی وی وی پی کی طرح مسجدوں میں لایا جاتا ہے جو کہ کسی سپر سٹار کی طرح نئی نئی گاڑیوں پر درجنوں لوگوں کے ساتھ آتے ہیں ،مختصر سی تقریر کر کے ،مسجد کے فرش پر چند لمحے بیٹھ کر سادگی کا ڈرامہ کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ یہی کھلاڑی یا شوبز کے سپر سٹار کروڑوں اور اربوں کما رہے ہیں۔ انکے گھر دیکھیں تو عالیشان ہیں  لیکن انکی دکانیں دیکھیں تو غریب آدمی وہاں سے کوئی چیز خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتا اور یہاں عوام کا سادگی اور درویشی کے ڈرامے پر ٹرخایا جاتا ہے۔ آخر کیوں مولانا صاحب ان نورتنوں سے نہیں پوچھتے کہ بھائی ،میرے سے اگر اتنے ہی متاثر ہو تو کہاں ہے تمہاری سادگی کہاں ہے فقر؟ اصل میں مولانا صاحب کی یہ ترجیح ہے ہی ہے نہیں، جو وی وی آئی پی پروٹوکول انہیں ملتا ہے اسکی گلٹ کو کم کرنے کیلئے وہ ایک روح افروز بیان فرما دیتے ہیں۔ الله بھی خوش لوگ بھی خوش مگر کیا ضمیر بھی خوش ہو گا؟

طارق جمیل صاحب آج چاہیں تو پاکستان کو مثبت تبدیلی کی جانب لانے والی اہم ترین شخصیت بن سکتے ہیں مگر اسکے لئے انہیں اپنے مروجہ انداز اور ناز و ادا سے بے گانگی اختیار کرنا ہو گی .یہ ایک انتہائی مشکل امر لگتا ہے۔

One Response

  1. M A Hameed Reply

Leave a Reply