“Reality bites” – Jang group response on BOL TV ban
بول پر پابندی، ‘ایک تلخ حقیقت’ جنگ گروپ کا جواب

By Raza Ruman

Islamabad (Pakdestiny) In contrast with Dawn, Jang media group has openly justified action against BOL TV in its editorial.
The Jang today’s editorial says that facts are bitter and hard to be swallowed. While Dawn wants no hurdle in the launch of BOL TV, Jang wishes otherwise.
Now it is up to the reader who has to judge which media group has solid reasons – Jang or Dawn.

رضا رمان سے

اسلام آباد – پاک ڈیسٹنی – ڈان میڈیا گروپ کے برعکس جنگ میڈیا گروپ نے اپنے اداریئے میں بول ٹی وی کے خلاف کارروائی کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.
روزنامہ جنگ کی آج کی اداریئے میں یہ بیان کیا گیا ھے کہ حقائق تلخ اور مشکل سے ھضم ھوتے ھیں ۔ جبکہ ڈان بول ٹی وی کے اجراء میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتا ہے جبکہ روزنامہ جنگ کی خواھش اس کی برعکس ھے۔
روزنامہ جنگ یا ڈان۔اب فیصلہ کرنا قاری پر منحصر ہے کہ وہ کس میڈیا گروپ کہ کی آرا کوصحیح اور ٹھوس مانتا ھے
روزنامہ جنگ کا اداریہ

Jang Editorial

​​بول اور پیمرا…..حقائق بہت بے رحم ہیں

حقائق بہت بے رحم ہی نہیں سخت جان بھی ہوتے ہیں۔ ہم چاہے اُنہیں لچک دار دلائل، جیسا کہ ’’میڈیا رقابت‘‘ اور ’’ایڈیٹوریل کنٹرول‘‘ ​​کے من پسند پردے کے پیچھے چھپانے کی کوشش کریں، وہ جان نہیں چھوڑتے ۔ اگر ایگزیکٹ؍بول ایشوکے حوالے سے ایمانداری سے بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ ایگزیکٹ اور اس کے چینلز شروع سے ہی غیر شفاف معاملات کے حامل تھے اور ایگزیکٹ کمپنی، جس سے اس وقت بہت بڑے جعلی ڈگری اسکینڈل کی تحقیقات کی جارہی ہیں، ہی بول انٹرٹینمنٹ اور بول نیوزکی روح ِ ر واں تھی۔ اِن دونوں کو کسی بھی حوالے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح پیمرا نے بول کو آگے بڑھنے کی اجازت دی، اس سے پہلے ہی بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوچلے تھے۔ پیمرا قوانین کا سیکشن 25بہت واضح طریقے سے کہتا ہے کہ ایک ٹیلی ویژن چینل چلانے کے حقوق ایسی کمپنی کو نہیں دیئے جاسکتے جس کا مالک کو ئی غیر ملکی ہو۔ ایگزیکٹ پاکستان کے 99.99 فیصد شیئرز ایک غیر ملکی کمپنی Axact FZ LLC, Dubai کی ملکیت ہیں جبکہ شعیب شیخ اور اس کی بیوی اس کے محض برائے نام شیئرز ہی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پیمرا قوانین کو چکما دینے اور اپنے مشکوک معاملات کو بے نقاب ہونے سے بچانے کے لئے شعیب اور اس کی بیوی نے ’’لبیک پرائیوٹ لمیٹڈ‘‘، جس کی ملکیت میں ایک پاکستانی چینل تھا، کے زیادہ تر شیئرز صرف پانچ لاکھ روپے کے عوض خرید لئے اور اسے بول انٹر ٹینمنٹ چینل میں تبدیل کرلیا۔ بعد میں جناح ٹی وی بھی اسی طرح خرید کر بول نیوز میں تبدیل کرلیاگیا۔
وزارت ِداخلہ نے درخواست دینے کے چند دن کے اندر اندر، حیرت انگیز جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نیوز ڈائریکٹرز کو سکیورٹی کلیرنس دے دی حالانکہ معمول کی کارروائی میں سکیورٹی کلیرنس میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ بعد میں ایجنسیوں کے اعتراض پر سکیورٹی کلیرنس واپس لے لی گئی لیکن اُنھوں نے سندھ ہائی کورٹ سے سٹے آرڈر لے لیا۔ حیرت انگیز طور پر دوسال کا عرصہ گزر گیا لیکن پیمرا نے سٹے ختم کراکے معاملے کی تحقیقات کرانے اور اسے شفاف طریقے سے طے کرنے کی زحمت نہ کی۔ اس دوران بول کے متعلق میڈیا میں ایگزیکٹ کے اشتہارات سے کسی کو بھی اس بات میں شک نہ رہا کہ ایگزیکٹ ہی بول کی مالک ہے۔ بول میں شامل ہونے والے پیشہ ورصحافیوں، جو اس کے عہدیدار ہونے کے علاوہ اس کے شیئرز بھی رکھتے ہیں، کی طرف سے کیے گئے متعدد اعلانات کے بعد صورت ِحال روز ِروشن کی طرح عیاں ہونا شروع ہوگئی کہ لبیک محض کاغذائی کارروائی کے طور پر ایک دکھاوا تھا اور ایگزیکٹ کے مالکان اور شیئر ہولڈرز ہی بول میں اہم عہدوں پر فائزہیں، گویا بول اور ایگزیکٹ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔
یہ تعلق کئی اور حوالوںسے بھی واضح ہوتا ہے۔ بول کی نشریات میں استعمال ہونے والے سیٹلائٹ ٹرانسپونڈرز (satellite transponders)ایگزیکٹ کے نام سے رجسٹرڈ کرائے گئے، بول نیوز اور بول انٹر ٹینمنٹ کوبھی ایگزیکٹ کے نام سے رجسٹرڈ کرایا گیا۔ لبیک کا اڈریس وہی تھا جو ایگزیکٹ کا ہے جبکہ بول اور ایگزیکٹ تمام قانونی معاملات میں ایک دوسرے سے وابستہ تھیں۔ اس حقیقت سے صر ف وہی نظریں چرا سکتا ہے جو بالکل واضح حقائق کو رد کرنے پر تلا ہوا ہو۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ، حقائق بہت بے رحم ہی نہیں سخت جان بھی ہوتے ہیں اور وہ آسانی سے جان نہیں چھوڑتے۔ بہت سے ایسے ہی حقائق کو2013میں میڈیا کے سامنے لایا گیا لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا کے بعض دھڑوں نے اسے ’’میڈیا مالکان کی رقابت‘‘ قرار دے کر ہوا میں اُڑا دیا۔ اگر اُس وقت سنجیدہ صحافی اور میڈیا مینجرحقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے خود کو دھوکا نہ دیتے اور اگر وہ دھوکے( یالالچ؟) میں آئے بغیر، صحافت کی پیشہ وارانہ اقدار کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے ایگزیکٹ؍بول ایشوکو ذرا گہرائی تک دیکھ لیتے تو وہ خود کو بھی شرمندگی سے بچا لیتے اور پاکستانی میڈیا کو بھی آج اس ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ان باتوں کا اعادہ کیا جانا ضروری ہے کہ یہ بنیادی حقائق تو کئی برسوںسے اکثر کے علم میں تھے کہ ایگزیکٹ ہی بول کی اصل مالک ہے۔ اس معاملے میں کارفرما غیر قانونی بنیاد کو بوجوہ نظر انداز کیا گیا ۔ شعیب شیخ اور اس کے خاندان نے قانون کو دھوکا دینے کے لئے لبیک چینلز خریدے تاکہ بول کی درست ملکیت کو الجھائو میں رکھا جائے، تاہم یہ بہت باریک نقاب تھا، اس کے پیچھے اصل معاملات بالکل عیاں تھے اور ان میں کسی کوبھی شبہ نہ تھا۔ اور تو اور، ایگزیکٹ نے بھی اصلیت پر پردہ ڈالنے کی بہت زیادہ کوشش نہیں کی کہ وہ اور بول ایک ہی کمپنی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی کہانی اور اس سے اٹھنے والے طوفان کے بعد جب ایف آئی اے تحقیقات کررہی ہے تو ضروری ہے کہ یہ معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے تاکہ آئندہ ایسے معاملات سے بچا جاسکے۔
معلومات ، جو اب راز نہیں رہیں، کے مطابق ایف آئی اے ایگزیکٹ کی مجرمانہ سرگرمیوں کا تحقیقات کررہی ہے تو ضروری ہے کہ اس کمپنی کی طرف سے میڈیا چینل چلائے جانے کے معاملے پر بھی نظر رکھی جائے اور ان دونوں کو الگ کرکے نہ دیکھا جائے۔ پیمرا کوکچھ سوالات کا جواب دینا پڑے گا کہ اس نے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک غیر ملکی کمپنی کو چینل چلانے کی اجازت کیوں دی؟ اس معاملے کو دیکھنے کے لئے نیب کو ایک خط لکھا گیا لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔ یقینا جو کچھ دکھائی دیتا ہے ، اصل معاملہ اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ صرف ایگزیکٹ ہی اس پیمانے اور مختلف سطحوں پر اس طرح قانون کی دھجیاں نہیں اُڑا سکتی تھی، چنانچہ اس تاثر کا ابھرنا لازمی ہے کہ یہ معاملہ تہہ درتہہ پھیلاہوا ہے۔ اسے صرف میڈیا ہائوسز کی رقابت قراردے کر اغماض برتناحماقت ہوگی ،کیونکہ ایسا کرنا اتنے سنجیدہ معاملے کو بچوں کو کھیل بنانے کے مترادف ہوگا۔ یہ بات واضح ہوچلی ہے کہ ابھی بھی اس ایشوکو دبانے اور اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔ پاکستانی میڈیانے ہر مرتبہ اہم سیاسی اور مالی اسکینڈلز پر آواز بلند کی ہے، اسے یقینا اس مرتبہ بھی خاموش نہیں رہنا چاہئے کیونکہ ایگزیکٹ؍بول اسکینڈل میں خود اس کا نام بھی داغدار ہورہا ہے۔ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش تمام میڈیا کا نام بدنام کرنے کی غیر اخلاقی ، بلکہ مجرمانہ سرگرمی تصور ہوگی۔ ہمیں چند سال پہلے بھارت میںپیش آنے والے ایسے ہی واقعے ، جس میں ایک غیر ملکی کمپنی ملوث تھی، سے سبق سیکھتے ہوئے دیکھنا چاہے کہ بھارتی حکام نے اُس موقع پر کیا کارروائی کی تھی۔ بول کا قصہ بھی بہت سی الجھائو دار بے قاعدگیوںسے عبارت ہے کیونکہ یہ بھی ایگزیکٹ کا حصہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ بہت سے پیشہ ور صحافی جو اس صفوں میں شامل ہوئے، کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جانا چاہئے۔ یہ قصور حکام کا ہے جنھوں نے یا تو اس معاملے کو نظرانداز کیا یابوجوہ چشم پوشی کا ارتکاب کرتے ہوئے بول اور ایگزیکٹ کے تعلق کو نہ دیکھ پائے۔ یقینا بول میڈیا ہائوس ایگزیکٹ کے جعلی ڈگریوںکے گھنائونے کاروبار میں برابر کا شریک ہے کیونکہ اس میں ایگزیکٹ کی رقم استعمال ہورہی تھی لیکن یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس میں اُن پیشہ رو صحافیوں کاکوئی قصور نہیں جنہوں نے بول میڈیا گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی تنخواہیں اداکی جانی چاہییں۔ اگرایگزیکٹ اور بول کو بند کردیا جاتا ہے یا بول کے ملازمین کو نکال دیا جاتا ہے تو پھر اُنہیں گولڈن شیک ہینڈ ملنا چاہئے۔اگر بول چینل کو میدان میں آنا تو ضرور آئے لیکن اس کے لئے پیمراکے قوانین کی پیروی ضروری ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستانی میڈیا کے لئے بہتر ہوگا کیونکہ اب وقت آگیا ہے جب ہر قسم کے پس ِپردہ کھیل اور دھندلی سرگرمیاں ختم کردی جائیں اور ہر معاملے میں شفافیت اور قانون کی پاسداری کو یقین

Leave a Reply