Malala’s (Gul Makai) diary was ‘tampered’ to achieve vested interests

Islamabad, Oct 13 News Desk (www.pakdestiny.com) Some nefarious elements have deliberately tampered with the diary of Malala Yousufzai on BBC Urdu to achieve their vested interests.
Such elements tampered her original write-up by adding sentences like “Burka (veil) is a sign of stone age. When I see Taliban they remind me of firon (pharaoh)”.
The campaign was smartly devised to invite attack on her.
Here are the original and tampered with diaries of Mala:
Original

پیر، پانچ جنوری: زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں۔۔۔

آج جب سکول جانے کے لیے میں نے یونیفارم پہننے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو یاد آیا کہ ہیڈ مسٹرس نے کہا تھا کہ آئندہ گھر کے کپڑے پہن کر سکول آجایا کریں۔ میں نے اپنی پسندیدہ گلابی رنگ کے کپڑے پہن لیے۔ سکول میں ہر لڑکی نے گھر کے کپڑے پہن لیے جس سے سکول گھر جیسا لگ رہا تھا۔

اس دوران میری ایک سہیلی ڈرتی ہوئی میرے پاس آئی اور بار بار قرآن کا واسطہ دیکر پوچھنے لگی کہ ’خدا کے لیے سچ سچ بتاؤ، ہمارے سکول کو طالبان سے خطرہ تو نہیں؟‘ میں سکول خرچ یونیفارم کی جیب میں رکھتی تھی لیکن آج جب بھی میں بھولے سے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو ہاتھ پھسل جاتا کیونکہ میرےگھر کے کپڑوں میں جیب سرے ہی نہیں۔

آج ہمیں اسمبلی میں پھر کہا گیا کہ آئندہ سے زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں کیونکہ اس پر بھی طالبان خفا ہوسکتے ہیں۔

سکول کی چھٹی کے بعد گھر آئی اور کھانا کھانے کے بعد ٹیوشن پڑھا۔ شام کو میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو اس میں بتایا گیا کہ شکردہ سے پندرہ روز کے بعد کرفیو اٹھالیا گیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ہمارے انگریزی کے استاد کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور وہ شاید کل پندرہ دن کے بعد پڑھانے کے لیے سکول آجـائیں۔

BBC original diary link

Tampered with:

پیر پانچ جنوری : رنگین کپڑ ے مت پہنو

میں اسکول روانہ ہونے کیلئے یونیفارم پہن ہی رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پرنسپل نے ہمیں یونیفارم پہننے سے منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر کے سادہ کپڑوں میں اسکول آیا جائے اور برقعہ پہن کر۔ مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون۔. شام کو امی، میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا نہیں جاسکتا۔سوات میں آجکل ایک بات مشہور ہوگئی ہے کہ ایک دن ایک عورت شٹل کاک برقعہ پہن کر کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں گر پڑی۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب اسے اٹھانا چاہا تو عورت نے منع کرتے ہوئے کہا ’رہنے دو بھائی مت اٹھاؤ تاکہ مولانا فضل اللہ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے‘۔ہم جب مارکیٹ میں اس دکان میں داخل ہوئے جس سے ہم اکثر شاپنگ کرتے ہیں تو دکاندار نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں تو ڈر گیا کہ کہیں تم لوگ خود کش حملہ تو کرنے نہیں آئے ہو۔وہ ایسا اس لیے کہہ رہے تھے کہ اس پہلے ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہے کہ خود کش حملہ آور نے برقعہ پہن کر حملہ کیا ہے۔میں نے اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا لباس پہننے کے لئے نکالا۔ دیگر لڑکیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آتی تھی اور اسکول گھر کے ماحول جیسا لگتا تھا۔اسکول میں میری ایک سہیلی نے پاس آکر کہا کہ برائے خدا ایمانداری سے بتاو کہ کیا طالبان ہمارے اسکول پر حملہ کرنے جارہے ہیں۔صبح کی اسمبلی میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ رنگین لباس پہن کر اسکول نہ آئیں کیونکہ طالبان اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔میں اسکول سے واپس آگئی اور شام کو ٹی وی پر دیکھا تو خبر آرہی تھی کہ پندرہ دن کے بعد شکر درہ سے کرفیو اٹھالیا گیا ہے ۔ یہ خبر سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ ہماری انگریزی کی استانی وہاں رہتی تھی جو کرفیو کی وجہ سے نہیں آسکتی تھیں۔ امید ہے کہ اب وہ بھی اسکول آنے لگیں گی۔

5 Comments

  1. pro pakistan Reply
  2. Naveed Qesar Reply
  3. Sajid Abbas Reply
  4. pakistani Reply

Leave a Reply