A story of a Pakistani journalist – Sethi is no exception

از ڈاکٹر عامر لاھوری

کچھ سال گزرے مجھے بھی صحافی بننے کا شوق چرایا تھا۔ایک اخبار والوں نے باقاعدہ ٹرینی رپورٹر رکھ لیا۔وہاں پہ میرا ایک ہم عمر کام کرتا تھا۔بندہ زندہ دل اور میچور مائنڈڈ تھا اس لئے جلد ہی دوستی ہو گئ۔ایک دن کہنے لگا میں گورنر پنجاب کا انٹرویو کرنے جا رہا ہوں۔چلنا ہے؟میں نے کہا کیوں نہیں۔سو ہم دونوں اُسکی بائیک پہ گورنر ھاؤس پہنچے۔پروٹوکول آفیسر نے بڑا اچھا اسقبال کیا۔بڑے سجے ہوئے کمرے میں بٹھایا۔چائے شائے پلائی۔گورنرصاحب آئے۔بڑے پرتپاک طریقے سے ملے۔انٹرویو بھی بڑے خوشگوار ماحول میں ہوا۔انٹرویو ختم کر کے گورنر ھاؤس سے نکلے ہی تھے کہ اگلے چوک پہ ناکے پہ پولیس والوں نے روک لیا۔کاغذات دکھاؤ۔بتایا کہ ہم صحافی ہیں۔

پولیس والا:سب یہی کہتے ہیں۔صحافی ہو تو کارڈ دکھاؤ۔
دوست نے بڑی شرافت سے جیب سے کارڈ نکالا۔چیک کروایا۔پولیس والے نے پھر بائیک کے کاغذات نہیں مانگے اور جانے دیا۔
دو چار دن کے بعد کی بات ہے کہ ہمارے ایک سینیئر صحافی صاحب آفس آتے ہی گالیاں نکالنا شروع ہو گئے۔اوہ میں آج ایدی پین نال سوں جانا اے۔شدید غصے کے عالم میں۔پانی پلایا۔پوچھا ہوا کیا ہے تو پتہ چلا کہ صاحب جی کو ناکے پہ کسی پولیس والے نے روکا۔کارڈ مانگا ہے۔جس پہ صاحب جی کو غصہ آ گیا۔ناکے پہ تو تو میں میں ہو گئ باقی غصہ انہوں نے آفس آ کر نکالا۔
اُن دنوں شہبازشریف پاکستان آیا تھا لیکن مشرف نے فورآ ہی واپس بھجوا دیا تھا۔آفس کی طرف سے کوریج کا آرڈر ملا اور ہم دونوں ایئرپورٹ چل پڑے۔پہلے ناکے پہ سات آٹھ صحافی دوست پولیس والوں سے جھگڑ رہے تھے کہ ہمیں آگے جانے دو۔خیر ہماری بدمعاشی کام آئی اور پولیس والوں نے ہمیں جانے دیا۔اس سے اگلے ناکے پہ پھر یہی سین دھرایا جا رہا تھا۔یہاں بھی ہم لوگوں نے جھگڑا شروع کیا پر یہاں سچؤیشن اور تھی۔اس ناکے پہ پولیس والوں کی تعداد ہم لوگوں سے کہیں زیادہ تھی۔جھگڑا بڑھ رہا تھا۔خیر ادھر پولیس والے ابھی ڈنڈے سیدھے کر ہی رہے تھے کہ میرے دوست نے آواز لگائی”ڈاکٹر نس جا”۔
یہ سننا ہی تھا کہ ہم نے دونوں نے دُڑکی لگائی۔کچھ پولیس والے پیچھے آئے تھے مگر اُس وقت ہم یوسین بولٹ سے بھی تیز ہوئے ہوئے تھے۔خیر تھوڑی دور جا کر مڑ کر دیکھا تو صحافی بھائیوں کو ٹھیک ٹھاک کُٹ پڑ رہی ہے۔کسی کی ٹوئی اور کسی کے سر پر اور کسی کو لما پا کے کٹاپا اور ڈنڈے پڑ رہے تھا۔
دفتر پہنچ کر باس نے رپورٹ مانگی تو آپنی رپورٹ یہ تھی کہ “دوڑ دوڑ آپنی اپنی”۔
بعد میں میری دوست سے جو ڈسکشن ہوئی اُس میں سے سب سے کام کی بات یہ تھی “اصل میں ہم صحافیوں کا بس پردہ ہوتا ہے۔اصل طاقت یا پاور ہمارے پاس ہوتی ہی نہیں ہے۔بس چکاوا ہوتا ہے۔ہم لوگ گورنر سے مل لیں گے۔پروٹوکول ہمیں ہمارے پروفیشن کا مل جائے گا لیکن یہ بس خالی خولی پروٹوکول ہی ہوتا ہے جسے ہمارے اٹھانوے فیصد صحافی بھائی پاور سمجھ بیٹھنے کی غلطی کر لیتے ہیں۔کسی افسر کو کہہ کر کام کروا لیں گے لیکن وہ افسر کام نہ کرے تو ہم اُس کا کیا پٹ لیں گے؟نیگیٹو رپوٹنگ کے علاوہ بلیک میل،میڈیا ٹرائل اور کیا کر سکتے ہیں ہم؟ملک ریاض،زرداریز،شریفسز آپنی اربوں کی کرپشن پہ پردہ ڈالنے کے لئے ہمیں چند لاکھ کا پلاٹ دے دیں گے اس سے زیادہ ہماری کیا اوقات ہےلوگوں کو یہی پتہ ہے کہ بڑی ھوں پھاں ہے لیکن اندر کچھ نہیں ہوتا۔
ایک اور مثال ابھی پرسوں صحافیوں کو فیصلاباد میں یونیورسٹی گارڈوں سے جو کُٹ پڑی ہے۔اس پہ ابھی تک صحافیوں نے کیا پٹ لیا ہے؟
آب ائیے اصل مدعے کی طرف۔
نجم سیٹھی پاکستان کا نمبرون صحافی ہے۔نواز نے اسے آپنی سائیڈ پہ رکھنے کے لئے کرکٹ بورڈ میں رکھوا دیا۔دوسری طرف سیٹھی بھی پاور ھنگر کا مریض ہے۔پہلے بھی نگران وفاقی وزیر بن کے دیکھ ہی لیا تھا کہ اصل پاور تو اصلی منسڑ کے پاس ہوتی ہے پھر یہ نگران وزیراعلی والی غلطی دھرانے کی کیا ضرورت تھی؟صرف تین مہینے کی نگران وزارت اعلی میں آپ نے کونسا کشمیر فتح کر لینا تھا؟تیسری غلطی بورڈ کی نوکری لینا تھی۔ارے بھئ عمران خان تو فل نواز پہ unleash ہوا ہوا ہے وہ آپ کو کس کھاتے میں چھوڑے گا؟عمران کے لورز تو اس ٹائم فل جوش اور فل غصے میں ہیں۔انہیں موقع مل گیا۔گھیرے میں لے لیا۔فل نعرے لگائے۔بزرگ آدمی ہے۔کوئی سیاسی تربیت بھی نہیں ہے۔ڈر گیا۔گھبرا گیا۔سہم گیا۔سیٹھی صاحب یہ پرائس ہے پاور کی جو پاکستان میں پے کرنی پڑتی ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ پاکستان میں پاور ود آؤٹ پرائس مل جاتی ہے۔نو۔نیور۔
یہاں تو وزیراعظم کو پھانسی لگ جاتی ہے۔وزیراعظم کو جلاوطنی کاٹنی پڑتی ہے۔وزیراعظم کو سر میں گولی کھانی پڑتی ہے۔اجی حضور آپ کس باغ کی مولی ہیں؟آپ بنیادی طور پہ صحافی ہی ہیں۔کوئی پاور نہیں ہے آپ کے پاس۔آپ کے پاس صرف اتنی ہی پاور ہے کہ ٹی وی پہ بیٹھ کے جو مرضی بول دیں۔صحافی کے پاس کوئی پاور ہوتی تو آب تک حامدمیر کو گولیاں مارنے والے کو سزا نہ ہو گئ ہوتی؟حامدمیر ابھی بھی سکرین پہ بیٹھا ہے لیکن اُس کیس کا کیا بنا؟کچھ پتہ ہے؟
صحافیوں کو خود بھی پتہ نہیں چلتا لیکن وہ ایجنسیوں کے ھاتھوں میں کھیلے جاتے ہیں۔پپٹ کی طرح ٹریٹ ہوتے ہیں۔ایک ایجنسی والے کا فون آتا ہے۔اس معاملے کو اُٹھا دو اور یہ بھونپوؤں کی طرح شروع ہو جاتے ہیں۔ان کے خیال میں ان کے بڑے تعلقات ہیں لیکن اصل میں یہ استعمال ہو رہے ہوتے ہیں وہ بھی بہت کم پرائس میں۔او جی ساڈی بڑی گیم اے۔چھنکنا گیم ہے تہاڈی۔ملک ریاض چند کروڑ کے پلاٹ دیکر آپ لوگوں کا آپنی اربوں کی کرپشن پہ منہ بندھ کروا دیتا ہے۔
نجم سیٹھی پہ پہلے ہی سوشل میڈیا میں اچھی خاصی ہو رہی تھی وہیں سے سیٹھی کو سمجھ جانا چاھیئے تھا۔آپ کی پاور صرف سکرین تک محدود ہے اور آب تو سنا ہے سیٹھی نے سکرین بھی چھوڑ دی ہے مزید پاور کے حصول کے لئے مطلب سیٹھی صاحب کا ابھی مزید ذلیل ہونے کا ارادہ ہے۔سکرین پہ بیٹھا ہوتا تو بدلہ لے لیتا پر آب بدلہ لینے کا بھی کوئی میڈیم نہیں ہے۔ٹھیک ہے ساری دنیا کے بورڈز میں منظور نظر لوگ ہی لگتے ہیں لیکن یہاں سیٹھی بورڈ میں لگنے سے پہلے ہی متناذعہ ہو چکا تھا۔
آپنا آپنا مزاج ہے میرے جیسے لوگ تو کسی ایک بندے کی اوئے بھی برداشت نہیں کرتے۔یہ تو ناممکن ہے کہ کچھ لوگوں کا گروپ مجھے گھیرے میں لا کر نعرے لگا دے۔
عمران لورز کو بھی خیال کرنا چاھیئے۔بزرگ آدمی ہے۔اُسکی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اُسے جانے دینا چاھیئے تھا مگر افسوس عمران لورز کے اندر بدتمیزی کا عنصر بہت بڑھتا جا رہا ہے۔آپ لوگ اور کچھ نہیں تو یہ عبدالشکور اجمل ٹائپ کریکٹرز کو تو کنٹرول کرو۔اس طرح کے کیریکٹرز آپ لوگوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔جو نہیں جانتے اُن کے لئے کمنٹس میں تصویر لگا رہا ہوں۔آب یہ نہ پوچھنا کہ ہم کیسے کنٹرول کریں؟ارے بھائی سادہ سی بات ہے اس کی وال پہ جا کر اسے وارننگ کے انداز میں سمجھاؤ۔نہیں باز آتا تو بائیکاٹ کر دو۔
ن لیگ والوں کا ایک احمد وقار بی بی بھی ہے۔یہ بھی پی ٹی آئی کی ٹھیک ٹھاک bashing کرتا ہے لیکن اسے یہ پاکستان خان کی طرح کی گالیاں نکالتے میں نے نہیں دیکھا؟اگر کبھی نکالی ہوں تو میں نے دیکھا نہیں یا میرے علم میں نہیں۔
ھاں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ گالیاں اور بدتمیزی کرنے والے دونوں طرف ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف ان کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے۔

4 Comments

  1. جاوید ضیا Reply
  2. انور Reply
  3. Najam Ali Reply
  4. Muhammad Hayat Reply

Leave a Reply