‘Wise guy’ syndrome … rampant in society

(Pakdestiny.com)- By Dr Amer Lahori

اپنی بات کو حرف آخر اور اپنے آپ کو عقل کُل سمجھنا تکبر،رعونت بلکہ فرعونیت کے زمرے میں آتا ہے۔بہترین اپروچ تو یہی ہے کہ آپ “اپنی”بات کو زیادہ سے زیادہ 99.9% درست سمجھ سکتے ہیں۔(یاد رہے کہ یہاں لفظ اپنی بات استعمال ہوا ہے)۔
اس اپروچ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ میں نئی بات کو جاننے اور دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ برقرار رہتا ہے جو آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنتا رہتا ہے کیونکہ علم تو ایک نا ختم ہونے والی چیز کا نام ہے۔زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن علم کی حدیں ختم نہیں ہوتیں۔سیکھنے کا عمل آخری سانس تک جاری رہتا ہے اور رہنا چاھیئے۔
فیس بُک پہ آپ کو بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جو اپنے آپ کو عقل کُل اور اپنی بات کو حرف آخر سُمجھتے ہیں ان کی بہت ساری قسمیں ہیں لیکن ان میں سے زیادہ عام اور خطرناک قسم اُن لوگوں کی ہے جو اپنے نام کے ساتھ علامہ،قاری یا مولانا لگاتے ہیں۔وہی مخصوص قسم کا حلیہ!
یاد رہے مجھے یہاں کسی کے حلیے کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔مقصد لفظ حُلیہ لکھنے کا ان کی پہچان کرانا ہے۔بس۔
یہ لوگ مذھب کے بارے میں تو کسی حد تک جانتے ہیں اور انگریجی،اردو لکھنا بھی اُن کو آتا ہے تو بس پھر یہ لوگ تقریبآ اپنی ہر بات کو مذھب کا تڑکا لگا کر پیش کرتے ہیں۔لکھنے کی دنیا میں سب سے آسان کام اپنی بات کو مذھب کا تڑکا لگا کر بیان کرنا ہے کیونکہ “مذھب تڑکا لگی” بات سے اختلاف کرنا بہت مشکل کام ہے۔
ادھر ہماری پڑھی لکھی کلاس مثلآ پروفیشنلز ڈاکٹر،انجینیئر،چارٹرڈاکاؤنٹنٹ،وکیل وغیرہ ان سے بہت امپریس نظر آتے ہیں۔یہ لوگ اپنی کورس کی کتابیں اور دوسری مصروفیات وغیرہ میں چونکہ زیادہ کھوئے رہتے ہیں اس لیے انہیں مذھب کے بارے پڑھنے کا زیادہ ٹائم نہیں ملتا اور پھر جب اسی تڑکے والے مولوی کی کوئی تحریر یہ لوگ جب پڑھتے ہیں تو واہ واہ،کیا بات ہے،بہت اعلی وغیرہ شیرہ۔
حالانکہ یہ تڑکے والے حضرات وہی کچھ ہی بتا رہے ہوتے ہیں جو محلے کا ایک امام مسجد بتا رہا ہوتا ہے،بس لفاظی کا فرق ہے۔بہت ساری مثالیں ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں یہ ملا ٹائپ حضرات بہت بُرے expose ہوئے جب ایک صاحب نے داڑھی کو لے کر بڑا عاجزانہ سا سوال کر ڈالا۔
پچھلے دنوں فیس بُک کے ایک بہت بڑے علامہ صاحب کو میں نے یہ پوائنٹ آؤٹ کیا کہ جناب آپ بھی اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے(ہر مولوی کی طرح)۔تو اُن کا جواب تھا کہ نہیں میں تو اختلاف رائے برداشت کرتا ہوں تو میں نے کہا کہ اچھا پھر یہ ہی بتا دیں کہ اختلاف رائے کیا ہوتا ہے؟
تو صاحب نے فرمایا کہ اختلاف رائے یہ ہے کہ پہلے انہوں نے کوئی بات کی تو جواب میں میں نے ان سے اختلاف کیا تو پھر آگے سے وہ جواب دیں گے اور بس پھر بات ختم۔اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کر لیں کہ کون صحیح ہے؟
میں نے جوابآ عرض کیا کہ جناب اختلاف رائے ہمیشہ ہی کھلی بحث کو جنم دیتا ہے۔اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ اپنے دلائل دیتے جائیں گے اور میں اپنے۔بحث کُھلتی چلی جائے گی اور جب بات لمبی ہو جائے گی تو جو غلط ہو گا اُسے خود ہی اپنی غلطی کا احساس اُس وقت نہیں تو بعد میں ہو جائے گا۔بحث مباحث میں کسی کو غلط،صحیح ثابت کر کے”ہی” چھوڑنا حماقت ہوتی ہے۔
کون صحیح ہے اس کو ثابت کرنا۔
۔نہ آپ کا کام ہے۔
۔نہ میرا کام ہے۔
۔نہ لوگوں کا کام ہے۔
بھائی صاحب اختلاف رائے اور بحث”جنگ” نہیں ہوتی کہ کہ کون جیتا اور کون ھارا؟
آب آپ پوچھیں گے کہ انہوں نے آگے سے کیا جواب دیا تو جناب اُنہوں نے مجھے جواب میں بلاک کر دیا۔
جی ھاں۔
اس مثال میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب آپ اپنی بات کو حرف آخر اور اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتے ہیں تو آپ کا مکالمہ دو کمنٹس کے تبادلے کے بعد خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
آخری بات۔
لکھنے کی دنیا میں سب سے مشکل کام اپنی بات کو منطق اور دلیل سے صحیح ثابت کرنا ہے اور سب سے آسان کام اپنی بات کو مذھب کا تڑکا لگا بیان کرنا ہے۔تڑکے لگی بات کو تو کوئی زیادہ علم والا ہی چیلنج کرے گا باقی عام علم رکھنے والا تو واہ واہ،بہت اعلی کی گردانیں ہی رٹتا رہے گا۔
شتم خد۔

4 Comments

  1. M A Hameed Reply
    • Salam Khan Reply
  2. abbasi Reply
  3. Anonymous Reply

Leave a Reply