Mother of all U-turns Maryam takes to appease the army in a bid to return to power

Mother of all U-turns Maryam takes to appease the army in a bid to return to power

By Irum Saleem

This is the mother of all U-turns.
This U-turn outclass over 100 U-turns of Imran Khan.

After trumpeting for three years – give respect to the ballot and there should be no role of army in politics — deposed prime minister Nawaz Sharif’s daughter Maryam Nawaz buried this narrative finally taking U-turn and declared that PMLN is ready to talk to the army once the selected government of Prime Minister Imran Khan is sent packing.

“There is a possibility of a dialogue between my party and the army from the platform of the Pakistan Democratic Movement (PDM). But that will take place in front of the public only after the selected government is sent home.

In an interview with BBC Urdu, Maryam said members of the “security establishment has reached out to many people around me but nobody has directly contacted me.

When asked if she is ready to hold talks with the current army leadership, Maryam said that the “possibility of initiation of dialogue from the PDM’s platform could be thought about but after the selected government has been sent home”.

This sent a panic waves among the PTI ranks that got worried that their place is being threatened by the old favourites of the establishment.
Maryam in one U-turn outsmarted Imran Khan for his dozens of U-turn.
Now can rightly be said that if Imran is king of U-turns Maryam is queen of U-turns. PAK DESTINY

بات چیت آئین کے دائرے اور عوام کے سامنے ہوگی، چھپ چھپا کر نہیں ہوگی:مریم نوازشریف

بات چیت تو اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوگی اور ہورہی ہے

عوام کے ساتھ اس ’ڈائیلاگ‘ سے وہ تمام قوتیں اورجعلی حکومت، سب گھبرائے ہوئے ہیں

گھبراہٹ میں اس قسم کی حماقتیں کررہے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے

ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمشن“ کی تشکیل سے پہلے جعلی حکومت کو گھر جانا ہوگا، اس سے پہلے کوئی بات کسی سے نہیں ہوسکتی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نوازشریف کا برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویومیں اظہار خیال

اسلام آباد ( ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نوازشریف نے کہا ہے کہ بات چیت تو اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوگی اور ہورہی ہے۔ یہ ’ڈائیلاگ‘ جاری ہے جس کی وجہ سے وہ تمام قوتیں جو ہیں اورجعلی حکومت، سب گھبرائے ہوئے ہیں۔ اور اتنا گھبرائے ہوئے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ جواب کیسے دیں۔ گھبراہٹ میں اس قسم کی حماقتیں کررہے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ ڈائیلاگ اب پاکستان کے عوام کے ساتھ ہوگا۔ اس ملک کے سب سے بڑے ’سٹیک ہولڈر‘ (فریق) پاکستان کے عوام ہیں۔ جو عوام کہیں گے وہ کرنا پڑے گا۔ نوازشریف اور مریم نوازشریف کے بیانیے کے انجام کے حوالے سے سوال پرانہوں نے کہاکہ اس سارے بیانیے کا انجام وہ ہوگا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ ملک کے ایک سے دوسرے کونے تک حق و سچ اور آئین و قانون کی آواز آئے گی۔ اس ملک میں انشائ اللہ آئین کی حکمرانی ہوگی۔ حکومت کو گھر بھجوانے کے طریقہ کار کے بارے میں سوال پر مریم نوازشریف نے کہاکہ غیرآئینی طریقہ تو نہیں ہوسکتا۔ جس طرح یہ حکومت چل رہی ہے، اس طرح یہ چل ہی نہیں سکتی۔ یہ حکومت کس طرح چلے گی؟ معیشت کا حال دیکھ لیں۔ کوئی بھی ادارہ دیکھ لیں۔ خارجہ پالیسی دیکھ لیں۔ امن وامان دیکھ لیں۔ ہر لحاظ سے یہ حکومت مکمل طورپر ناکامی سے دوچار ہے اور ناکام ہوچکی ہے۔ 200 روپے کا ڈالر ہوجائے اور پھر 195 کا ہوجائے، تو کیا اس طرح سے معیشت مستحکم ہوجائے گی؟مستحکم وہ ہوتی ہے کہ پانچ سال ڈالر 99 روپے کا رہے۔ معاشی صورتحال ان نالائقوں کے ہاتھوں تو بہتر نہیں ہوسکتی۔ بہتری کی کوئی گنجائش ہوتی تو اڑھائی سال میں یہ حال نہ ہوجاتا جو آج ہوچکا ہے۔ موجودہ حکومت سے بات چیت کرنے کے سوال پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہاکہ یہ دیکھا جائے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ پوری کی پوری حکومت جعلی ہے۔ یہ سلیکٹڈ حکومت ہے۔ اس کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے۔ عمران خان ہو یا اس کی پارٹی میں سے کوئی دوسرا شخص ہو۔ میں ابھی اس پر کوئی حتمی بات نہیں کرسکتی۔ ملک کو بحران سے کیسے نکالاجائے کے سوال پر انہوں نے کہاکہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے میں سمجھتی ہوں کہ اس حکومت کو پہلے گھر جانا ہوگا۔ عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ اس ملک کو بحران سے نکالنے کا اگر کوئی طریقہ ہے تو یہ جعلی حکومت گھر جائے۔ ملک میں شفاف اور آزادانہ انتخابات ہوں۔ اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ یہ حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ عوام رو رہی ہے۔ بلک رہی ہے۔ ہر روز مہنگائی ہورہی ہے۔ ہر جگہ آپ ناکام ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا میں آپ نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور آج لوگ کہہ رہے ہیں کہ تو یہ دباو کس لئے آرہا ہے۔ یہ عوام کا دباو آرہا ہے۔ سلیکٹرز کو اس پر جواب دینا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو گھر بھجوانے کی لائن آف ایکشن کیا ہوگی؟ کے سوال پر مریم نوازشریف نے کہاکہ لائن آف ایکشن تو ابھی دیکھی جائے گی۔ پی ڈی ایم میں بیٹھ کر بات کریں گے۔ دیکھا جائے گا۔ ملک میں ”ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمشن“ بنانے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ اس (کمشن کی تشکیل) سے پہلے اس جعلی حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ اس سے پہلے کوئی بات کسی سے نہیں ہوسکتی۔ اس کا کوئی بھی طریقہ ہوسکتا ہے۔ لوگ ان (موجودہ حکومت) کو رہنے نہیں دیں گے۔ آپ دیکھیں کہ کس طرح لوگ (بڑی تعداد میں) جلسوں میں آرہے ہیں۔پی ڈی ایم کی عوامی تحریک کا عوام بھرپور جواب دے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے قائدین کا بیانیہ نوازشریف یا کوئی اور رہنما ان کے بیانیہ میں عوام اپنا ریلیف دیکھ رہے ہیں۔ عوام کے اس سیلاب کے آگے یہ (حکومت) کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ان کو گھر جانا پڑے گا۔ پرسوں ہو یا ایک ماہ بعد ہو۔ ان کو گھر جانا پڑے گا۔ اس کے لئے ہمارے آپشن کھلے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ کون سا راستہ اپنایا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے رابطے کرنے اور بلاول بھٹو کی پیچھے ہٹنے اور بات چیت کو موقع دینے کے انٹرویو سے متعلق بیان پر مریم نوازشریف نے کہاکہ یہ خبریں آرہی ہیں۔ میرے اردگرد لوگوں سے رابطے ہوئے ہیں۔ براہ راست مجھ سے رابطہ نہیں ہوا۔ میں نے سوچ بتادی ہے۔ میں کسی بھی ادارے کے خلاف نہیں ہوں۔ میں صرف یہ سمجھتی ہوں کہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت اور عمران خان کو گھر جانا ہوگا۔ بلاول بھٹو سے میری گزشتہ روز ملاقات ہوئی۔ انہوں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ بلاول کی اپنی جماعت اور سوچ ہے۔ اپنی ترجیحات ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی اپنی سوچ اور تجربات ہیں۔ محمد نوازشریف تین بار وزیراعظم رہے ہیں۔ اور اس دفعہ انہیں جو مشکلات پیش آئیں۔ جس طرح ان کے ساتھ سلوک کیاگیا۔ وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ تو میاں نوازشریف نے تو حقیقت بیان کی ہے۔ میاں نوازشریف نے کوئی الف لیلی کی کہانی نہیں سنائی۔ انہوںنے کہاکہ میاں نوازشریف نے بات بعد میں کی ہے۔ تین سال میں ثبوت خود عوام کے سامنے آئے ہیں جن میں شوکت عزیز صدیقی صاحب کا بہت بڑا انکشاف تھا جو بہت حیران کن تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حاضرسروس جج ہوتے ہوئے انہوں نے پوری دنیا کو بتایا کہ کس طرح ان کو کہاگیا کہ نوازشریف اور مریم نواز کو ضمانت نہیں دینی۔ اسی طرح جج ارشد ملک کے انکشافات آپ کے سامنے ہیں۔ ڈان لیکس کی حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ جب آپ چیف کو توسیع نہیں دیتے تو وہ ڈان لیکس جیسی ایک جعلی اور بالکل جھوٹ پر مبنی ایک چیز کھڑی کردیتے ہیں۔ وہ آپ کو دباو میں لاتے ہیں۔ دوسرے چیف کو توسیع دینے کے سوال پر انہوں نے کہاکہ جی آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ اس پر میں کوئی تبصرہ اس لئے نہیں کرسکتی کیونکہ یہ بالکل ہوا ہے۔ میں اس کی توثیق کروں یا نہ کروں۔ یہ ہوچکا ہے۔ وہ بات اب پیچھے رہ گئی ہے۔ یہ حقیقت بھی ایک دن انشائ اللہ عوام کے سامنے آکر رہے گی۔ عمران خان نہ ہوں تو مریم نوازفوج سے بات کرنے کو تیار ہیں؟ کے سوال پر انہوں نے کہاکہ فوج میرا ادارہ ہے۔ بات ضرور کریں گے ہم لیکن آئین کے دائرہ کار میں۔ کوئی اپنی کریز سے نکل کر کھیلنے کی کوشش کرے گا۔ اور وہ آئینی حدود جو آئین نے وضع کی ہیں، آئین میں درج ہیں، ان میں۔ عوام کے سامنے بات ہوگی۔ چھپ چھپا کر نہیں ہوگی۔ سیاست کے بند گلی میں پہنچ جانے کے سوال پر مریم نوازشریف نے کہاکہ آپ نے عوام کا ردعمل دیکھا ہے۔ بندگلی کی طرف ان کی سیاست جارہی ہے جنہوں نے ایک جعلی چیز مسلط کی۔ ہمارا بیانیہ گوجرانوالہ ہو۔ کراچی ہو۔ کوئٹہ ہو۔ گلگت بلتستان ہو۔ ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ اس ملک کو کون چلائے گا؟ سٹیٹ کے اوپر ایک سٹیٹ نہ بناو۔ وہ صرف بیانیہ نہیں ہے بلکہ اس کا عملی مظاہرہ اس کا ثبوت عوام نے خود جگہ جگہ دیکھ لئے ہیں۔ تو یہ بند گلی نہیں۔ اب یہ ہی راستہ ہے۔ یہ کسی بند گلی کی طرف نہیں جارہا بلکہ یہ آئین اور قانون اور اس کی بالادستی کی طرف یہ راستہ جارہا ہے اور یہ ہی راستہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہر جگہ نوازشریف کی حمایت ہے۔ ان کے عوامی خدمت کے کام ہیں۔ عوام نوازشریف کا بیانیہ سننے آتے ہیں۔ اور ان کے بیانیے پر ہی عوام بات کررہے ہیں تو وہ بات تو مجھے کرنا پڑے گی۔ نوازشریف وہ بتارہے ہیں جو عوام سننا چاہ رہے ہیں۔ تو اگر میں وہ بات نہیں سناوں گی جو لوگ سننے آئے ہیں جو پاکستان سننا چاہتا ہے تو میں اور کیا بات کروں؟ بدقسمتی سے عمران خان کی بات اس لئے کرنا پڑتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کررہے ہیں جو نہیں ہونی چاہئے ورنہ میں ان کا نام بھی نہیں لینا چاہتی۔ ایک انسان کے طورپر بہت ہی غیرمتعلقہ انسان ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آٹا۔ چینی۔ بجلی۔ گیس مہنگی ہے۔ پاکستان میں ہرجگہ لوگ بدحال اور برے حال میں ہیں۔ عوام حکمرانوں کو بددعائیں دے رہے ہیں تو پھر عمران خان کا نام نہ لوں تو کس کا نام لوں۔

2 Comments

  1. Wali Muhammad Lashari Reply
  2. Suleman Al Faisal Reply

Leave a Reply