مکافات عمل کی چکی!

mkafat e amal ki chakki

– آصف مسعود –

یونیورسٹی کا پہلا روز تھا، تمام چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے، تابناک مستقبل کا خواب سجائے طالب علم کلاسوں کا رخ کر رہے تھے، کلاسوں سے فارغ ہو کر طالب علم ایک دوسرے کا تعارف کروانے لگے، میں بھی سب سے مل رہا تھا اچانک ایک کھلکھلاتا چہرہ میرے سامنے آگیا وہ ایک سانولے سے رنگ کا پرکشش نوجوان تھا، زندگی کی تمام رنگینیوں سے بھرپور اس نے اپنا تعارف کروایا، “خادم کو رمضان مسرور جٹ کہتے ہیں”، میں نے بھی پرتپاک انداز میں ہاتھ بڑھایا اور پھر دو سال ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہم آگے بڑھتے گئے، وہ کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی تھا بہت اچھا اتھلیٹ تھا، اس کے والد ایک سرکاری ملازم تھے، تین بھائیوں میں اس کا دوسرا نمبر تھا۔

یونیورسٹی ختم ہوتے ہی ہمارے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہو گئے، اس میں خالصتا میرا ہی قصور تھا، میں کبھی بھی اچھا دوست ثابت نہیں ہوا، آپ تمام تعلیمی کیریئر میں میرے تعلیمی ادارے بدلتے رہے اور میں پرآنے دوست پیچھے چھوڑتا آتا چلا گیا، رمضان کے ساتھ بھی میں نے یہی کیا، وہ بیچارہ تو کئی مرتبہ مجھ سے ملنے بھی آیا، فون بھی کرتا رہا، لیکن میری سستی کی وجہ سے میں ایک مخلص دوست سے محروم ہو گیا، کافی عرصہ اس کی کال نہیں آئی، پھر ایک دن اچانک اس کی کال آئی وہ بری طرح رو رہا تھا، اس کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا تھا، میں نے اسے دلاسا دیا اور کہا کہ میں جنازے پر آئوں گا، لیکن ایک مرتبہ پھر میں نے سستی دکھائی اور اس کے والد کے جنازے پر نہیں گیا، میں آج بھی اپنی اس حرکت پر سخت شرمندہ ہوں اور اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں، اس دن کے بعد اس کا کبھی فون نہیں آیا۔

وقت کا دھارا بہتا گیا دن مہینوں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہو گئے، ہم اپنی اپنی زندگیوں کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے،میری بہن کی شادی کراچی میں ہوئی تھی، والد صاحب اس کے ساتھ کراچی گئے تو وہاں ان کو ہارٹ اٹیک آیا اور ان کا انتقال ہو گیا، مجھے ان کی ڈیڈ باڈی لینے کے لئے کراچی جانا تھا، ایئر پورٹ پر ٹکٹ لیتے ہوئے کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا، مڑ کر دیکھا تو رمضان تھا، بڑی گرمجوشی سے ملا، پوچھنے پر میں نے والد کی فوتگی کا بتایا، دفنانے کا مقام اور وقت مجھ سے پوچھ کر وہ چلا گیا، لیکن والد کے جنازے پر آیا نہیں، شاید میرے لئے قدرت کا یہ نقد انصاف تھا۔

زندگی آگے بڑھتی گئے اور چند سال گزر گئے، ایک دن اچانک بازار میں یونیورسٹی کا ایک ساتھی کامران ملا، اس سے یونیورسٹی کے باقی ساتھیوں کے بارے میں پوچھا تو اس کا جتنے دوستوں سے رابطہ تھا، اس نے ان کے بارے میں بتایا، ان سالوں میں اس کی دوستی رمضان سے کافی گہری ہو چکی تھی، میرے کہنے پر اس نے رمضان کا نمبر مجھے دے دیا، ان سالوں میں فون لینڈ لائن سے موبائل میں منتقل ہو چکا تھا، رابطے شاید اب آسان ہو چکے تھے، رمضان کو کال ملانے پر وہی زندہ دل آواز کانوں میں پڑی، خوب باتیں ہوئیں، اب ہم اکثر بات کر لیا کرتے تھے، چند دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ رمضان کی ذہنی حالت کچھ ٹھیک نہیں، میں نے سوچا شاید وقت نے سنکی کر دیا ہے، لیکن جب بھی میری اس سے بات ہوتی تو کچھ دیر صحیح باتیں کرنے کے بعد وہ پٹری سے اتر جاتا، میرے لیے فون پر اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا، اس کی حالت سے لگتا تھا کہ وہ کسی بڑی مصیبت میں ہے، لیکن میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا کیونکہ ہمارے درمیان دس یا بارہ سال کا گیپ آگیا تھا، وہ شادی شدہ تھا اس کی ایک بیٹی تھا، وہ ایک سرکاری ادارے میں کام کر رہا تھا، مجھے بس اتنا ہی پتہ تھا۔

دوبارہ رابطہ بحال ہونے کے بعد ہماری فون پر ہی بات ہوتی تھی، یہ سلسلہ دو یا تین سال جاری رہا، ہم نے کئی مرتبہ ملنے کا پروگرام بنایا لیکن ملاقات نہ ہو سکی، شاید وہ ملنا نہیں چاہتا تھا، کیونکہ اسے پتہ تھا کہ جب ہم ملیں گے تو وہ کچھ نہیں چھپا پائے گا،

ایک دن اچانک اس کی کال آئی وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا، میں نے کہا گھر آجا تو وہ بولا نہیں تیرے گھر کے قریب جو پارک ہے وہاں ملتے ہیں، جب میں پارک پہنچا تو وہ اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کھول کر اس پر لیٹا ہوا تھا، لگتا تھا کوئی مسافر ہے جو بڑے لمبے سفر سے تھک ہار کر لوٹا ہے، ہاتھ میں پانی کی بوتل، پیر ڈبل روٹی کی طرح سوجے ہوئے، وہ شوخ اور چنچل رمضان ماضی کی دھول میں کھو چکا تھا اور اس کی جگہ ہارا ہوا ایک مڈل ایج شخص میرے سامنے پڑا تھا، چالیس سال کی عمر میں وہ پچاس سے بھی زیادہ کا لگ رہا تھا، اسے دیکھ کر رنج اور محبت سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے، ہم تقریبا دس سال بعد مل رہے تھے، اس کی حالت دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا، شاید وہ اپنا غم مجھ سے بانٹنا چاہتا تھا، اس نے جو کہانی سنائی اس نے میری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ وہ ایک سرکاری ملازم کا بیٹا تھا، اور وہ تین بھائی تھے،والد کی زندگی میں ہی اس کے بھائی کو نشے کی لت لگ گئی تھی، والد کی موت کے بعد گھر کی ذمہ داری والدہ کے ساتھ مل کر اس نے سنبھالی، حکم والدہ کا ہی چلتا تھا، زمانے کی شرمندگی اور لعن طعن سے بچنے کے لیے اس نے والدہ کے ساتھ مل کر اپنے بھائی کو زہر دے دیا، وہ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتا تھا، اس کے بعد اس کی نیند اور چین اڑ گیا، رات کے کسی پہر اس کو شدید درد اٹھتا اور وہ چیخیں مارنے لگتا، تمام ٹیسٹ کروائے گئے لیکن سب رپورٹیں کلئیر تھیں، پھر ایک رات اس کو درد اٹھا، وہ ایک قریبی کلینک پر گیا اور اسے اس کا علاج مل گیا، ڈاکٹر نے ایک انجیکشن لگایا اور اس کے درد کو قرار آگیا، پھر یہی ہوتا جب بھی درد ہوتی وہ کلینک جاتا اور انجیکشن لگوا لیتا، وہ انجیکشن مارفیا کے تھے، اب وہ بھی اپنے بھائی کی طرح ایک عادی نشہ باز بن چکا تھا، ساری تنخواہ اب انجیکشن پر لگ رہی تھے، نوکری بھی خطرہ میں تھی، بیوی بیٹی کو لے کر میکے جا چکی تھی، ماں نے ایک نشئ بیٹے سے جان چھڑوائی تھی اب دوسرا بیٹا اس سے بھی بدتر زندگی گزار رہا تھا۔

شاید میرے ذہن کی گہرائیوں میں رمضان کا انجام چھپا تھا، ایک دن صبح چھ بجے مجھے کامران کی کال آئی، آصف رمضان مر گیا، پوچھنے پر کامران نے بتایا کہ وہ کچھ دیر پہلے سیڑھیوں سے گرا اور اس کی موت ہو گئی، شاید تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی، مکافات عمل کی چکی الٹا چل چکی تھی، جب میں نے اس کے زخموں کو دیکھا تو وہ کسی طرح بھی نئے نہیں لگ رہے تھے، وہ دو یا تین دن پرانے تھے، ایسا لگتا تھا جیسے اسے ڈنڈے سے بری طرح پیٹا گیا تھا، کامران کا بھی یہی خیال تھا، میں نے اسے کہا لگتا ہے اسے بھی زہر دیا گیا ہے، اب شاید تیسرے اور آخری بھائی نے ماں کے حکم کی تعمیل کی تھی، کامران کا اس کے گھر والوں سے کافی تعلق تھا، اس نے بتایا کہ رمضان کو اس کے بھائی کے پاس دفنایا جائے گا، جب قبرستان پہنچے تو کوئی آگے نہیں بڑھا میں قبر میں اترا اور اپنے دوست کو اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کیا، جب ہم لوگ قبر پر مٹی ڈال رہے تھے تو میں نے کامران سے پوچھا اس کے بھائی کی قبر کہاں ہے، اس نے مجھے کہا اس میں ہی تو دفنایا ہے، قریب ہی اس کی بھائی کی قبر کی تختی پڑی تھی، میں حیران تھا اللہ کا انصاف کتا نرالا ہے کہ ایک کہانی کے دو کردار اور ایک سا انجام اور ایک ہی مقام پر۔ یہ ہمارے لئے نشانیاں ہیں اگر ہم سمجھیں تو۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو کوتاہیاں معاف فرمائے، میرے دوست رمضان پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے اس کے گناہ معاف فرمائے اور اسے جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

|Pak Destiny|

Leave a Reply