1997 کا حج اور میری ماں!

Mina camps.. fire at Hajis camps

– آصف مسعود –

آٹھ زالحج کے دن منی کے میدان میں، میں اپنی ماں کے ساتھ خیمے میں بیٹھا تھا، خیمہ بہت بڑا تھا اور اس میں سینکڑوں مرد اور عورتیں موجود تھیں، ایک خاتون کافی غور سے مجھے گھور رہیں تھیں، مجھے اللہ سے شرم محسوس ہوئی اور میں اپنی ماں کے پہلو میں منھ ڈھانپ کر لیٹ گیا، اچانک شور بلند ہوا اور لوگ باہر کی جانب بھاگتے دکھائی دیئے، میں نے اپنا سامان اٹھایا اور والدہ کے ساتھ باہر لپکا،جب میں باہر نکلا تو قیامت کا سماں تھا، شور تھا کہ آگ لگ گئی ہے لیکن آگ ابھی نظر نہیں آ رہی تھی، پر لوگ دروازے کی طرف بھاگ رہے تھےہمارے مکتب(بلاک) میں دو یا تین ہزار لوگ موجود تھے، اور ساتھ والے مکتب میں بھی اتنے ہی لوگ تھے، وہ بھی ہمارے راستے سے نکلنے کی کوشش میں تھے، مکتب کا دروازہ دس فٹ کا ہو گا اور اس کے دو پٹ تھے، دروازہ صرف اندر کی جانب کھل سکتا تھا کیونکہ باہر کی جانب اس کے آگے تقریبا ایک فٹ کی دیوار تھی، جب بھگدڑ مچی تو انتظامیہ نے دروازے بند کر دیئے، کیونکہ کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ اصل معاملہ کیا ہے، جب انہیں صورتحال کا اندازہ ہوا تو دیر ہو چکی تھی، لوگ دروازوں پر جمع ہو چکے تھے، باہر دیوار تھی اندر لوگ, اس لئے صرف پانچ فٹ کا ایک پٹ کھل سکا، جس میں سے ہزاروں لوگوں کو باہر جانا تھا، لوگ ایک دوسرے پر گرتے رہے، اور ڈھیر اونچا اور بڑا ہوتا گیا، اب آگ بھی قریب آ رہی تھی، میں کچھ دیر والدہ کو سائیڈ پر لے کر کھڑا ہوا، تاکہ جو بیچارے لوگ ایک پہاڑ کی صورت میں پھنسے پڑے تھے ان پر سے نہ گزرنا پڑے، وہ لوگ بے حس پڑے تھے، انہیں میں ایک شخص کونے میں پھنسا ہوا تھا اس کی کمر باہر کی جانب تھی اور اس کی گود میں ایک بے حس خاتون موجود تھیں، وہ چلا رہا تھا کوئی میری ماں کو بچائو، اسی دوران آگ کی لہریں ہم تک پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں، ہزاروں لوگ ان زندہ لوگوں پر سے گزر کر بھاگ چکے تھے، اور شاید ہی کسی میں زندگی باقی تھی، میں نے والدہ کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی جانب بھاگا، گرے ہوئے لوگوں کے اوپر سے آدھا ہی فاصلہ طے کیا ہو گا کہ والدہ گر گئیں ان کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں ریلے کے ساتھ باہر نکل گیا، باہر نکل کر پیچھے دیکھا تو والدہ نہیں تھیں شاید وہ بھی انہیں لوگوں میں دب چکیں تھیں، دکھ اور ندامت کا احساس میرے پورے وجود میں دوڑ گیا کہ گھر والوں کو کیا جواب دوں گا، بڑا باڈی گارڈ بن کر گیا تھا اور ماں کی حفاظت نہ کر سکا، لیکن زیادہ وقت نہیں تھا، آگ کی ایک بڑی لہر میرے جانب بڑھی اور میں نے دوڑ لگا دی، آگ میرے پیچھے پیچھے اور میں آگے آگے، تمام رستے بند تھے، ہر جگہ لوگوں کے ڈھیر تھے جو ایک دوسرے میں پھنسے ہوئے تھے، وہ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں تھے۔

ایک بڑی بس نے پوری سڑک بند کی ہوئی تھی، شاید بھاگنے کی جلدی میں جب ڈرائیور نے موڑنے کی کوشش کی ہو گی تو موڑنے سے پہلے ہی آگ کی وجہ سے اسے بھاگنا پڑا ہو گا اور اس سے ساری سڑک بلاک ہو گئی اور لوگوں کے نکلنے کا راستہ بند ہو گیا، وہاں بھی لوگ گرتے گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں ایک دوسرے میں پھنسے ہوئے تھے، وہ تمام لوگ بھی بے حس پڑے تھے مر چکے تھے یا شدید زخمی تھے کہ ہل بھی نہیں سکتے تھے، لوگوں کا ایک پہاڑ تھا، مجھے ان کے اوپر سے گزر کر جانا تھا، درمیان میں ایک شخص زندہ پھنسا ہوا تھا، اس کے سر بازو اور سینہ باہر تھا،بہت خوبصورت جوان تھا چوڑی چھاتی والا، اس نے بے بسی سے میری طرف ہاتھ بڑھایا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر کھینچنے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا میں بھی نیچے گر گیا ، میں اٹھا اور بھاگ کر بس کے اوپر چڑھنے کی کوشش کی، پہلی کوشش میں، میں بس کے شیشے سمیت نیچے آ گرا، لیکن اب چڑھنا آسان تھا کیونک بس میں خلا بن چکا تھا، بس کی چھت پر چڑھ کر دوسری جانب اتر گیا، سامنے پل تھا اس پر چڑھ گیا، اب آگ نیچے رہ گئی تھی، اوپر بہت لوگ تھے، سب حیران تھے کہ یہ بچ کر آگیا، میرا صرف نیچے کا احرام رہ گیا تھا، چپل اور اوپر کا احرام کہیں پیچھے ہی رہ گیا تھا، میں رو رہا تھا لوگ تسلی دے رہے تھے، اوپر پہنچ کر سانس میں سانس آیا، میری بیلٹ کمر پر موجود تھی جس میں پیسے تھے، میں نے چپل خریدی اور پیروں کو جلنے سے بچایا، کیونکہ گرم سڑک پر ننگے پیر چلنا بہت مشکل تھا، دھوپ جسم جھلسا رہی تھی ایک آدمی نے اہرام دیا تو سکون آیا، پل سے دوسری طرف نیچے اترا تو آگ نہیں پہنچی تھی، بلکہ کچھ دوکانیں تھیں، وہاں سے جوس پیا اور واپس چل دیا، اب انتظامیہ نے واپسی کے راستے بند کر دیئے تھے میں بےچین تھا مجھے واپس جانا تھا، یہ تقریبا دوپہر بارہ بجے کا واقعہ تھا، لیکن ہمیں شام تک اندر جانے نہیں دیا گیا، جب راستہ کھلا اور میں دوبارہ اندر پہنچا تو انتظامیہ سڑکوں پر سے تمام صفائی کر چکی تھی، سڑکوں والی لاشیں اور گاڑیاں بسیں سب ہٹا دی گئی تھں، لیکن جو لاشیں مکاتب کے اندر تھیں وہ ابھی وہیں موجود تھیں، آگ نے انہیں جھلسا دیا تھا اور اور وہ سب لاشیں آپس میں جڑ چکی تھیں آگ کی حدت کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ چپک چکی تھیں ، جب میں اپنے مکتب پہنچا تو وہاں بھی وہی ہال تھا وہ سب لوگ جن کے اوپر سے ہم گزر کر گئے اب جھلس چکے تھے اور شاید میری والدہ بھی، مرنے والوں کی کوئی شناخت باقی نہیں تھی، مرد اور عورت میں فرق کرنا بھی ناممکن تھا، لوگ اپنے پیاروں کے لئے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا، میں اکیلا ہی اپنے گھر والوں سے دور اپنی ماں کا سوگ منا رہا تھا، کوئی چپ کروانے والا تھا نہ کوئی دلاسا دینے والا، مجھ پیار کرنے والی اور میرے ناز نخرے اٹھانے والی شاید اب جا چکی تھی۔

کچھ ہی دیر میں انتظامیہ نے یہاں سے بھی لاشیں اٹھانا شروع کیں تو ہم اندر اپنی خیموں والی جگہ پر جا کر بیٹھ گئے، مغرب کا وقت ہو چلا تھا، میں اداس بیٹھا تھا آنسو ختم ہو چکے تھے، اچانک دور مجھے ایک جانی پہچانی قمیض نظر آئی، میں نے دوڑ لگائی اور جا کر اپنی ماں سے لپٹ گیا، وہ زندہ تھیں، انہوں نے بتایا کہ جب وہ گریں تو کسی طاقت نے انہیں کھڑا کر دیا اور وہ ریلے کے ساتھ باہر نکل گئیں، لیکن وہ اتنے گھنٹے اس کرب میں نہیں رہیں جس میں میں رہا تھا کیونکہ انہوں نے میری ساری ایفرٹ دیکھی تھی، کہ کس طرح میں بس پر چڑھا اور پھر پل پر چلا گیا، لیکن میں وہ سات گھنٹے کبھی نہیں بھول سکتا جن میں میں نے اپنی ماں کا غم اکیلے منایا تھا ابو اور بہن بھائیوں کے بغیر،

واپسی کے سفر میں جہاز کے اندر ایک شخص کو دیکھا جو قمیض کے بغیر تھا اس نے کمر پر ایک کپڑا ڈالا ہوا تھا، مجھے کچھ جانا پہچانا لگا، میں نے اس سے کہا آپ تو وہ ہی نہیں جو چلا رہے تھے کہ کوئی میری ماں کو بچائو، میں حیران تھا کہ وہ کیسے بچ گئے، انہوں نے بتایا کہ پتہ نہیں کس طرح باہر سے کسی نے انہیں کھینچ لیا، میں نے پوچھا کہ آپ کی والدہ، تو وہ بولے کہ وہ میری ساس تھیں، وہ نہیں بچ سکیں،

دو سال بعد میری منگنی غیروں میں ہوئی، ایک صاحب جانے پہچانے لگے، میں نے انہیں پھر پہچان لیا یہ وہی شخص تھے جو آگ سے بچ گئے تھے، میری بیگم کے سگے چچا نکلے۔ اتفاق دیکھئے اللہ کس طرح لوگوں سے ملواتا ہے۔

یکم دسمبر 2015 کو آمی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئیں، ابو کے انتقال کے 15 سال بعد۔

اللہ ان دونوں کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین

|Pak Destiny|

Leave a Reply