
لاہور ، ناظم ملک
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور عسکری قیادت نے ایرانی صدر کے دورہ سے خود کو فاصلے پر کیوں رکھا ؟
ایرانی صدر کے دورے میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی دفاعی تعاون کا کوئی معاہدہ بھی کیوں نہ ہوا ؟
صدر زرداری کی طرف سے ایرانی صدر کے اعزاز میں دئے گئے عشائے میں بھی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے شرکت نہیں کی
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اکیلے ہی ایران کے وزیر دفاع فوجی جرنیلوں سے ملاقات کیوں کی ؟
ایرانی صدر کا دورہ علامتی رسمی ملاقاتوں سرکاری ضیافتوں اور یاداشتوں پر دستخطوں تک محدود رہا کوئی ٹھوس پیش رفت کیوں نہ ہو سکی ؟
پاکستان کے سیاسی دفاعی اور خارجہ امور کے ماہرین کی طرف سے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کے حالیہ دورہ پاکستان پر مختلف آرا اور تجزئے سامنے آ رہے ہیں ان ماہرین کے مطابق ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر عسکری قیادت کا خود کو اس دورے سے فاصلے پر رکھنا بڑا معنی خیز ہے جو پروٹوکول سے بھی ہٹ کر ہے، ماہرین کے مطابق
صدر زرداری کی طرف سے ایرانی صدر کے اعزاز میں دئے گئے عشائے میں بھی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی عدم شرکت نے معاملے کو مزید تقویت دی ہے
اس کے علاوہ ایرانی وفد کی جب اپنے کاؤنٹر پارٹ خواجہ آصف سے مذاکرات ہوئے تو اس موقع پر خود ایران کے وزیر دفاع اپنے فوجی جرنیلوں سمیت شامل تھے، لیکن پاکستانی وزیر دفاع کے ساتھ فوج کے کسی بھی اعلیٰ افسر نے ان مذاکرات میں شرکت کی اور نہ ہی کسی مشترکہ تقریب میں شرکت کی بلکہ یہاں تک کہ وزارتِ دفاع کے اعلیٰ حکام بھی منظر سے اوجھل رہے۔

اگرچہ ذرائع کا کہنا ہے کہ علیحدہ ملاقاتیں عین ممکن ہے ہوئی ہوں
صدر پیزشکیان کا استقبال وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا۔ انہیں مکمل ریاستی اعزاز (full protocol) دیا گیا، جس میں گارڈ آف آنر، توپوں کی سلامی اور سرکاری ملاقاتیں شامل تھیں۔ ایرانی صدر نے لاہور میں اقبال کے مزار پر حاضری دی اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و توانائی تعاون کے فروغ پر زور دیا۔ بارہ “میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگز” (MoUs) اور معاہدوں پر دستخط کے بعد میاں شہباز شریف اور مسعود پیزشکیان نے یہ اعلان بھی کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو دس ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کا ہدف ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت پر انجام پایا ہے جب خطہ غیر معمولی کشیدگی سے گزر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید تناؤ، امریکی حملوں کے بعد ایران کے جوہری تنصیبات کو نقصان، اور غزہ میں جاری انسانی بحران نے پورے علاقے کو سفارتی، عسکری اور انسانی لحاظ سے ایک نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسی پس منظر میں جہاں پاکستان اور انڈیا ایک مختصر مگر واٹر شیڈ والی باہمی جنگ کے آفٹر ایفیکٹس سے نمٹ رہےتھے وہیں اب ٹرمپ ٹیرفس کے جھٹکے محسوس کر رہے ہیں۔
ان حالات میں ایران کی قیادت سفارتی تنہائی کو توڑنے اور خود کو ایک مؤثر علاقائی قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ روس اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات ضرور گہرے ہوئے ہیں، لیکن ان کی طرف سے عملی مدد اب تک علامتی نوعیت کی رہی ہے۔ خطے کے بیشتر ممالک امریکہ کے حامی ہیں اور افغانستان، پاکستان اور آرمینیا کے علاوہ سب ہی امریکی فوجی اڈوں کی میزبانی کرتے ہیں، یا ان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے جن میں سر فہرست متحدہ عرب امارات، قطر اور آذربائیجان کے نام آتے ہیں، اس لیے ایران خود کو خطے میں تنہا (isolated) محسوس کرتا ہے۔
پاکستان بظاہر ایران کے ان ایک دو قریبی ہمسایہ ممالک میں سے ہے جس کے ساتھ تہران کے سفارتی تعلقات نسبتاً بہتر ہیں۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان تعلقات میں گرمجوشی سے زیادہ احتیاط اور محدودیت کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ بلوچستان میں حالیہ بدامنی، سرحدی کشیدگی، اور ایران کی جانب سے شدت پسندوں کے خلاف یکطرفہ کارروائیاں پہلے ہی دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی تعلقات کو نازک بنا چکی ہیں، گزشتہ برس تو نوبت دونوں کے ایک دوسرے پر فضائی حملوں تک پہنچ چکی تھی، مگر معاملات سنبھال لیے گئے۔ ان حالات میں ایرانی صدر کا ےدورہ بظاہر ایک دوستانہ اقدام تھا، مگر اس دورے کے دوران جو علامتیں سامنے آئیں، وہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔
تاہم، ان تمام علامتی عزت افزائیوں کے باوجود ایک اہم اور غیرمعمولی بات سب کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہی، اور وہ تھی پاکستان کی عسکری قیادت کی معنی خیز غیر موجودگی،
لیکن یہ معمول کے سفارتی پروٹوکول سے ہٹ کر طرز عمل تھا جو خود ایک “نان وربل” (non-verbal) پیغام تھا۔ پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ، جو خارجہ پالیسی کی اصل انچارج ہے، کی طرف سے ایران کے ساتھ سٹریٹجک یا دفاعی قربت اختیار کرنے کے بارے میں کوئی خاموشی یا مصلحت سے کام لیا گیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایران امریکہ اور اسرائیل کے خلاف براہِ راست محاذ آرائی کی حالت میں ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ رویہ پاکستان کی اس خارجہ پالیسی کو اجاگر کرتا ہے جو برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایک طرف عوامی سطح پر فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے نعرے، مسلم امہ کے اتحاد کی باتیں، اور ایران جیسے ملک سے دوستانہ بیانات تو دوسری طرف امریکی امداد پر انحصار، آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے اپنے آزاد فیصلے نہ کر پانا، اور امریکہ سے تیل اور توانائی کی درآمدات کو ترجیح دینا۔ ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ کئی دہائیوں سے التوا کا شکار ہونا شامل ہے جبکہ اسی دوران پاکستان نے امریکہ سے مہنگی توانائی خریدنے میں تاخیر نہیں کی۔ ایسے پاکستان اور ایران کے درمیان 12 ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط کے کیا معنی رہ جاتے ہیں ؟
ایرانی صدر کے لیے یہ دورہ ممکنہ طور پر ایک موقع تھا کہ وہ پاکستان کے ذریعے مغرب تک ایک نرم پیغام پہنچائیں اور خطے میں اپنے لیے کچھ سیاسی جگہ بنا سکیں۔ خود پیزشکیان کو ایران میں نسبتاً معتدل سوچ کے حامل سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو مغرب سے بات چیت کے حامی رہے ہیں۔ اگر امریکہ اور اسرائیل ایران پر براہ راست حملے نہ کرتے تو صدر پیزشکیان کی اپنی ملکی میں حالت گرفت ہوتی تاہم حالیہ اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد ایرانی عوام کے جذبات سخت گیر موقف کی طرف جھک چکے ہیں، جس سے صدر پیزشکیان کے لیے داخلی سطح پر بھی پالیسی توازن برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ دورہ بنیادی طور پر ایک علامتی عمل تھا، جس میں رسمی بیانات اور سرکاری ضیافتوں کے علاوہ کوئی ٹھوس پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی۔ پاکستان کی عسکری قیادت کی خاموشی اور عملی طور پر لاتعلقی نے واضح کر دیا کہ تہران اور اسلام آباد کے تعلقات میں اس وقت کوئی خاص۔پیش رفت دیکھنے کو نہیں مل رہی، پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے، اور وہ کسی بھی ایسی شراکت داری سے گریز کر رہا ہے جو اسے کھلے عام اُسے کسی مخالف کیمپ میں لے جائے۔
ایران کے لیے یہ صورتحال لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے داخلی دباؤ، معاشی مسائل، اور بین الاقوامی سطح تنہائی کے احساس نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین اور روس کے ملٹی پولر ورلڈ کا خواب حقیقت بننے میں وقت لے گا، جبکہ مغرب سے محاذ آرائی نے ایران کو مزید تنہا کر دیا ہے۔ ایسے میں اگر اس کی معتدل قیادت پاکستان جیسے قریبی ہمسایہ ملک سے بھی عملی تعاون حاصل نہ کر سکے، تو پھر سفارتی محاذ پر بہتری کی امیدیں کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ مسعود پیزشکیان کے اس دورے کا حاصل صرف اتنا رہا کہ ایران نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، اور پاکستان سے خاموشی سے پاکستان کو اپنی پالیسی پر لائن لینے پر راضی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سن کے باوجود سفارتی مسکراہٹیں برقرار رہیں گی، لیکن اس دورے میں ایران اور پاکستان کے درمیان کوئی سٹریٹجک اور دفاعی میدان میں ابھی کوئی پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی