افغان جنگ کے شعلے پھر بھڑکنے کا خدشہ بائیڈن نے امریکہ طالبان ڈیل پر نظر ثانی کا عندیہ دے دیا

afghan war trump joe biden backout taliban peace deal

– لاہور ۔ ناظم ملک –

* طالبان نے تشدد کا راستہ نہیں چھوڑا جوبائیڈن کا طالبان پر عدم اعتماد

* بائیڈن نے ایک ایک کرکے ٹرمپ کے معاہدے کالعدم قرار دینے شروع کر دئے

نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے حلف اٹھاتے ہی سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر نظر ثانی شروع کر دی ہے جیاں انہوں نے پہلے دن ہی 17 ایگزیکٹو جاری کرکے ٹرمہ کے متعدد اقدامات کالعدم قرار دے دئے تھے وہاں اب نئی امریکی انتظامیہ کی طرف سے افغانستان میں عمل اور امریکی افواج کی واپسی کےلئے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر بھی نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں جنگ اور دہشتگردی کے بادل چھانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے،نئی امریکی انتطامیہ نے جمعے کو کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ کی جانے والی تاریخی امریکی ڈیل کا پھر سے جائزہ لیں گے،خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا طالبان جنگجووں نے معاہدے کے اپنے حصے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان میں حملوں میں کمی کی ہے یا نہیں۔

واشنگٹن نے گزشتہ سال قطر میں طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ عسکریت پسندوں سے سکیورٹی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے بدلے اپنی فوجوں کا انخلا شروع کریں۔لیکن ستمبر کے بعد سے دونوں فریقین میں مذاکرات کے باوجود پورے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کے نئے منتخب کردہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان نے اپنے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے بات کی ہے اور ’واضح کیا ہے کہ امریکہ ڈیل پر نظرثانی کا ارادہ رکھتا ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ واشنگٹن خاص طور پر یہ جائزہ لینا چاہتا ہے کہ کیا طالبان’دہشت گرد گروہوں سے اپنے رابطے منقطع کرنے، افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان حکومت اور دوسرے فریقین کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہیں۔‘

دوسری جانب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر محیب نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دوران دونوں فریقوں نے ’ملک میں مستقل جنگ بندی اور ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘

نائب وزیر داخلہ اور صدر اشرف غنی کے سابق ترجمان صدیق صدیقی نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس معاہدے سے اب تک طالبان کے تشدد کے خاتمے اور افغانوں کی طرف سے سیزفائر کی خواہش کا مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔حالیہ مہینوں میں خاص طور پر کابل میں مہلک حملوں اور اعلیٰ شخصیات کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے، جہاں کئی صحافیوں، کارکنوں، ججوں اور سیاستدانوں کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا ہے۔

طالبان نے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری سے انکار کیا ہے لیکن افغان اور امریکی عہدیداروں نے انہیں ہی ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

|Pak Destiny|

3 Comments

  1. Muhmmad Khurshid Reply
  2. Muhmmad Khurshid Reply
  3. Saeedullah Khan Reply

Leave a Reply