ڈالروں کی برسات

عمارہ خانم

سعودی عرب نے مشکل وقت میں ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اب بھی پاکستان پر ایک کڑا اور آزمائش کا وقت تھا اور ایک بار پھر اس نازک مرحلے میں وہ ہمارے ساتھ کھڑا نظرآیا اور ہماری مشکل گھڑیوں میں آسانی پیدا کی۔ یہ جو شور مچایا جا رہا ہے کہ کن شرائط پر سعودی عرب نے عربوں ڈالرز دیے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی سطح پر کچھ طاقتور قوتیں اس کے خلاف نہیں ہیں؟ اور کیا دینے والے ملک نے اپنے آپ کو ان قوتوں کے سامنے لا کھڑا نہیں کیا؟ اس لیے یہ کہنا کہ ہمیں اس کے بدلے اپنا کچھ نہ کچھ قربان کرنا پڑے گا، بلکل غلط بات ہے۔ ہم نے پچھلی صدی کے ایک مسلم ملک کے بنک کا واقعہ پڑھا تھااور وہ انتہایٔ طور پر آج کی باتوں سے مماثلت رکھتاہے ۔ بنک جس کا نام تھا بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (BCCI) اس بنک نے بھی IMF اور بیرونی ہتھکنڈوں سے نجات دلانے کے لیے ملکوں کو قرضے دینے شروع کیے۔ بنک نے دن دگنی رات چگنی ترقی کر لی اور چند ہی سالوں میں دنیا کے تمام بنکوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ امریکہ میں کیٔ بنک بند ہونا شروں ہو گیٔ جو کہ سامراج طاقتوں کیلیٔ نا گوار بات تھی۔ جن ملکوں کو قرض دیا گیا ان میںجمیکا ، پانامہ اور ہمارا پیارا ملک پاکستان بھی شامل تھا جس کو اس وقت بھی IMF سے بچانے کے لیے سو ملین کا قرض دیا گیااور سکیورٹی میں چاول کی فصل رکھی گیٔ ۔ اس قسم کی بے شمار باتوں کی وجہ سے اس بنک کو خمیازہ بھگتنا پڑا اور آخر کارجولایٔ 1991کو اس بنک پر امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے منی لانڈرنگ یعنی غیر قانونی رقوم کی ترسیل جیسے الزامات لگا کر بند کر دیا گیا۔ تو کیا اس وقت امریکہ اور برطانیہ کے اپنے بنک نہیں تھے جوان الزامات سے مُبرا نہ تھے؟ BCCI پر تو چند عرب ڈالرز کا الزام تھا۔ باقی جو رقوم کی غیر قانونی ترسیل ان کے اپنے بنک کرتے تھے ان کو صاف چٹ دے دی گیٔ توجناب زرا تاریخ کے اوراق دیکھییٔ اور کسی کی نیکی کو تنقید کا نشانہ مت بنائیے اور اپنے پیارے وطن کی خیر مانگییٔ اور جس نے نیکی کی اس کے احسان کو یاد رکھییٔ۔ بے جا تنقید اچھی بات نہیں اور اس کا نقصان ہمارے ملک کو بھی ہو سکتا ہے۔ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ جن افراد یا قوموں نے ان سامراجی قوتوں کی مدد کی ان کی اس نیکی کو انہوں نے نہ بھلایا بلکہ ان کو کسی نہ کسی طرح خود بلواسطہ یا بلاواسطہ مدد کو آے ٔ۔ میر جعفر نے ہندوستان میں انگریزوں کے قدم جمانے کے لیے ٹیپو سلطان سے غداری کی اور جنگ کے دوران اپنی فوج لے کر انگریزوں سے جا ملا ۔ جس کے نتیجے میں ٹیپو سلطان کو جنگِ پلاسی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ انگریزی افواج کی تعداد صرف تین ہزار تھی اور اس کا بھی بڑا حصہ ہندوستانیوں پر مشتمل تھا اور ٹیپو سلطان کی فوج میں بیس ہزار فوجی شامل تھے پر پھر بھی شکست ہونا کیا کہیں گے ۔ کیا یہ سب میر جعفر کی غداری کی وجہ سے نہیں ہوا؟ اب دیکھییٔ انگریز نے اس کی نسل کو کہاں پر فائدہ پہنچایا ۔ سکندر مرزا جو کہ میر جعفر کا پوتا تھا وہ کسی سازش کے تحت پاکستان کا صدر بنایا گیا۔ آج بھی دیکھیٔ ڈاکٹر شکیل آفریدی جس نے امریکیوں کی اُسامہ بن لادن تک پہنچنے میں مدد کی اس کو چھروانے اور امریکہ لے جانے کے لیے کس قدر زور لگا رہے ہیں ۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجیے اور ہوسِ اقتدار میں اپنے محسنوں پر شک نہ کیجیے۔

یہ تو ان بیرونی طاقتوںکو بھی اس بات کا بڑی اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جس دن پاکستان اپنی مشکلات سے آزاد ہوااس دن اسے ترقی حاصل کرنے سے کویٔ نہیں روک سکتا۔ اﷲنے ہمیں بہت سے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔
اس امداد کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر سعودیہ نے ہمیں امداد دی ہے اور وہ CPEC کا حصہ بھی بن رہا ہے تو ایران کیا سوچے گا؟ کیونکہ ایران اور سعودیہ دونوں مسلم ممالک کی آپس میں خاصی دشمنی ہے اور شائد ایران سمجھے گا کہ سعودی عرب کواس کے سر پر لا کربٹھا دیاہے۔ دوسری طرف ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ ایران نے ہمارے دشمن ملک ہندوستان کے ساتھ مل کرکیا کیا۔ اس میں کویٔ شک نہیں کہ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہمارے اس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اس کے باوجود گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار بندرگاہ بنایٔ۔ کیا اس وقت ایران نے نہیں سوچاتھاکہ پاکستان برادر اسلامی ملک کیا سوچے گا؟ ہر ملک سب سے پہلے اپنے لیے سوچتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر سب کچھ کرتا ہے جس میں کویٔ برایٔ نہیں۔ ایک ہم ہی ہیں جو اِدھر اُدھر کی چیزوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ملک کا مفاد بعد میں سوچتے ہیں۔ اس بارے میں تمام مسلم اُمہ کو بھی سوچنا چاہییٔ اور اپنے اختلافات کو مٹا کرمل بیٹھنا چاہییٔ۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب بیرونی طاقتیں مل کرتمام مسلم ممالک کو آپس میں لڑوا کر کمزور کر دیں گی اورآخرکارختم بھی۔ کیا عر اق، لیبیا، شام وغیرہ کا حشر سامنے نہیں ہے؟ یمن اور سعودی عرب آپس میں برسرِ پیکار ہیں جو کہ نہیں ہونا چاہییٔ۔
آخر میں ہم سب بیان کی گیٔ باتوں کی روشنی میں موجودہ گورنمنٹ کا بہت بڑا کارنامہ کہیں گے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہماری سابقہ حکومتوں میں بھی ایسا ہوا ہے اور انہوں نے پاکستان کی خاطر اسی قسم کی سہولتیں حاصل کیں۔
اﷲ ہمارے اس پاک وطن کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین!

2 Comments

  1. Munir Ahmed Khawaja Reply
  2. Mumtaz Lashari Reply

Leave a Reply