گداگری

begging,child labour,gadagri

(عمارہ خانم)

کسی بھی چوراہے سے گزریں یاجہاں پر لوگوں کا رش لگا ہوا ہو وہاں گداگروں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں اور یہ لوگ اس وقت تک جان نہیں چھوڑتے جب تک کچھ نہ کچھ لے نہ لیں۔ اگر گاڑی کے گرد جمع ہو ہو جائیں اور آپ نے گاڑی کے شیشے اوپر نہیں کیے ہوے ٔ تو یہ لوگ آپ سے نظر بچا کر آپ کی کویٔ قیمتی چیز اُٹھا لے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان میں کچھ لوگ تو انتہائی مجبوری کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں لیکن ان کی کثیر تعداد پیشہ ورلوگوں پر مشتمل ہے کیونکہ یہ یقیناً کمایٔ کرنے کا ایک خاصا آسان طریقہ ہے۔ بس انسان کو تھوڑا سا بے شرم ہونا پڑتا ہے۔ اس گداگری کے دھندے میں ایک مافیا ہے جو گداگروں سے یہ کام کرواتا ہے اور اس سے لاکھوں روپے کما رہا ہے اور ایسے لوگوں کا تعلق ہمارے ان لوگوں سے بھی ہے جو کہ حکومت میں ہیں۔ چوک بکتے ہیں اگر اس چوک کی حدود میں بھی کوئی دوسرا فقیر آجائے تو اسے مار کر بھگا دیا جاتا ہے۔ یہ گداگری لعنت ہونے کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہے لیکن آفرین ہے ہمارے ان اداروں پرجو اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والی بے تحاشا برائیاں بھی ہیں۔ مثلاً اغوا کی وارداتیں ہوتی ہیں اور کافی وقت سے ایسے خوفناک اور دل کو ہلا دینے والے انکشافات بھی ہو رہے ہیں کہ بچوں کو اغوا کر کے ان کے بازو ٹانگیں بے رحمی سے توڑ دی جاتی ہیں تاکہ وہ گداگری کر سکیںاور لوگوں کو ان پر رحم آ ے ٔ اور پھر لوگ ایسے بچوں پر ترس کھا کر کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جس گھر میں کوئی ایسا بچہ ہو جو قدرتی طور پر کسی جسمانی کمی کا شکار ہو یا ذہنی طور پر معذور ہو ، گھر والوں کو اُس کی خاص طور پر حفاظت کرنی چاہییٔ کیونکہ یہ لوگ ایسے بچے کو اغوا کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور اپنی آمدنی کاذریعہ بناتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو سخت اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ اس لعنت اور ساتھ ہی ایسے بے رحم لوگوں سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ کویٔ بھی ریاست اس قدر کمزور نہیں ہوتی کہ وہ اس پر قابو نہ پا سکے۔ ہر کام عدالتوں کا کرنے والا نہیں ہوتا کچھ کاموں میں حکومت کو بھی دلچسپی لینی چاہییٔ تا کہ یہی پیشہ ور افراد مُلکی ترقی میں شامل ہو کر اُس کو آگے بڑھا نے میں کردار ادا کر سکیں۔
اﷲہم سب کو ہدایت دے اور نیک راستے پر چلنے کی توفیق۔ (آمین!)

 

 

Leave a Reply