
علی احمد ڈھلوں
”کھاندااے تے لاندا وی اے‘ والی پالیسی اب نہیں چلے گی، ہمیں اب صحیح اور غلط کی سمجھ آچکی ہے…. گرین فلاں، سرسبز فلاں یا خوشحال پنجاب یاخوشحال یہ وہ،،، جیسے اشتہارات سے معافی دیں اور ہمارے حالات پر رحم کھائیں“ یہ الفاظ لاہور کے ایف سی کالج کی ایک طالبہ کے ہیں، جس نے ایک فورم میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ باتیں واقعی دل موہ لینے والی ہیں،،،خوشی اس بات کی ہوئی کہ نوجوانوں کی سوچ یکسر بدل گئی ہے،،، اور اب کبھی بھی الیکشن ہوئے تو نتیجہ ایک بار پھر عوام ہی کے ہاتھ میں ہوگا ،،، لیکن اُس کے بعد کیا ہوگا کچھ علم نہیں ! خیر آج کا موضوع ان دو بے ضمیر خبروں پر ہے کہ ایک تو وفاقی کابینہ میں اضافہ دوگنا کردیا گیا ہے، اور دوسرا پنجاب حکومت نے 60صفحات پر مشتمل اشتہارات کا ”ضمیمہ “ شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے اپنی کارکردگی کے پول کھولے ہیں۔ اب ان دونوں خبروں کا تعلق حکومتی نام نہاد کفایت شعاری کے بالکل برعکس ہے!
ویسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مشکل حالات میں حکومت کفایت شعاری کا خود بھی پرچار کرتی، سرکاری محکموں کو بھی آرڈرز کرتی اور ساتھ اس حوالے سے عوامی مہم شروع کرتی۔ لیکن پہلے وفاقی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 5سے دس گنا اضافہ کرکے سالانہ کھربوں روپے کے غیر ضروری اخراجات میں اضافہ کیا گیا، پھر 25نئے وفاقی وزراء، مشراءکی تعداد میںا ضافہ کرکے غریب کے پیٹ پر ایک بار پھر لات مار دی ہے،،، حالانکہ ان نئے شامل ہونے والے وفاقی وزراءو دیگر کو آپ خود دیکھ لیں کہ ان کی ماضی کی قابلیت کیا رہی ہے
©؟ جیسے وزیر اعظم کے3مشیرتوقیر شاہ،پرویز خٹک، محمد علی جبکہ چار معاونین خصوصی ہارون اختر، حذ یفہ رحمن‘ مبارک زیب اور طلحہ ہیں۔ جبکہ 12 وفاقی وزراءمیں سردار محمد یوسف ، محمد حنیف عباسی ، معین وٹو،مصطفیٰ کمال، اورنگزیب کچھی، رانا مبشر، رضا حیات ہراج، طارق فضل چوہدری، علی پرویز ملک،شزا فاطمہ،جنید انور اور خالد مگسی ہیں۔اب ان نئے وزراءو دیگر میں بتایا جائے کہ ایسا کونساوزیر وغیرہ ہے جس کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی تھی؟
لیکن انہوں نے ایک دوسرے کو اُٹھانے کے لیے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے اور اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے ایسا کرنا ہی تھا۔ بلکہ ابھی تو شکر کریں کہ پیپلزپارٹی وزارتوں کے لیے نہیں مان رہی وگرنہ 15سے 20وزارتیں اُن کی بھی نکالنا پڑیں گی اور پھر یہ تعداد سنچری کو جا پہنچے گی۔
بہرحال ملک اس وقت اس قدر شدید بحرانوں سے دوچار ہے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ ہم اگلے 20سالوں میں بھی ان سے نکل پائیں گے یا نہیں؟ اور پھر اوپر سے غیر ترقیاتی اخراجات بڑھتے ہی جا رہے ہیں،حالانکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے، یہاں آمدنی کی کمی نہیں ہے۔ لیکن کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہم اس کو خرچتے کیسے ہیں،،،
اس کی ایک چھوٹی سی مثال آپ وفاقی کابینہ میں اضافے کے حوالے سے دیکھ لیں،،، کہ صرف اتحادیوں کو راضی کرنے کے لیے اخراجات میں تباہ کن اضافہ کیا گیا ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ بجائے اس کے کہ حکومت اخراجات میں کمی کرے ،،، اس کے برعکس بندر کے ہاتھ میں ماچس آچکی ہے، کبھی یہ اراکین اسمبلی کی پانچ سے دس گنا تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیتے ہیں،کبھی یہ غیر ضروری فنڈز کا اجراءکرکے اتحادیوں کو خوش کرتے ہیں،،، تو کبھی یہ کابینہ کے وزراء، مشیروں اور دیگر میں اضافہ کرکے ملکی خزانے کا بوجھ بڑھا دیتے ہیں۔
اور بدلے میں یہ ڈلیور کیا کرتے ہیں؟ 26ویں غیر قانونی آئینی ترامیم ؟ یا ان کو اُس چیز کے ثمرات مل رہے ہیں کہ انہوں نے موجودہ حکومت کو طول دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے،،، یا انہوں نے من پسند ججز کی تعیناتی میں کردار ادا کیا ہے،،، یا انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو قانونی حیثیت دی ہے،،، اوقات تو ویسے ان کی یہ ہے کہ جب مرضی اغلے پارلیمنٹ میں گھُس کر آپریشن کرتے ہیں،،، اور من چاہے اراکین اسمبلیوں کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی اوقات جاننی ہوتو گزشتہ روز کی دی اکانومسٹ کی رپورٹ پڑھ لیں،،، جس کے مطابق یوگنڈہ جمہوری اقدار کے حوالے سے 96ویں نمبر پر آیا ہے اور ہم دنیا بھر میں جمہوریت کے حوالے سے 124ویں نمبر پر آئے ہیں۔ مطلب ان ممبران اسمبلی کو ضمیر بیچنے کے عوض مراعات دی جارہی ہیں۔
اور پھر یہی نہیں بلکہ پاکستان میں صدر مملکت، وزیر اعظم آفس، گورنر اور صوبوں کے وزیر اعلیٰ کے دفتروں کے سالانہ شاہانہ اخراجات ملک کے تعلیمی اور صحت کے بجٹ سے زیادہ ہیں۔ اس وقت ملک میں سرکاری اہلکاروں کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن کی قیمت کھربوں میں ہے اور یہ گاڑیاں سالانہ پٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں روپے خرچ کرتی ہیں، جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ امریکا جیسے امیر اور طاقتور ملک میں ماسوائے چند اداروں کے کسی کے پاس سرکاری گاڑی نہیں ہوتی، یہی حال دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔کیا کسی کو علم بھی ہے کہ ایک ایک وزیر کے شاہانہ پروٹوکول پر عوام کا کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے؟ اور ان وزیروں، مشیروں نے تو سارا دن اور اگلے چار سال تک پروٹوکول انجوائے کرنا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ گورنرہاﺅس یا صدر مملک جب اپنے ”ہجروں“ سے نکلتے ہیں تو کیا کسی کو علم ہے کہ ان کے شاہانہ پروٹوکول کے ساتھ کتنی گاڑیاں ہوتی ہیں؟ اور ان کا ایک ایک چکر کتنے میں پڑتا ہے؟ نہیں علم تو آپ خود دیکھ لیں کہ اس سال کے بجٹ میں ملک کی سکیورٹی پر مامور اعلیٰ عہدیداروں کے لیے 4کھرب 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز، وزراءاور مشیروں کے دفاتر پر4سو ارب روپے خرچ ہورہے ہیں۔ وزیراعظم اور صدر کے تفریحی الاﺅنسز پر بالترتیب 2اور ڈھائی روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر پر 20کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتا ہے جبکہ ہم تعلیم اور صحت پر سالانہ2ڈھائی سو ارب روپے فی کس خرچ کرتے ہیں۔
بہرحال عیاشیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں، کبھی اراکین اسمبلی تنخواہوں میں 10گنا تک اضافہ تک کبھی وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج۔ اور پھر یہ سیاستدان، بیوروکریٹس اور ہمارے ادارے جتنی عیاشیاں کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ اس کا اثر عوام پر نہیں پڑتا، بلکہ یہ سب کچھ عوام ہی سے نکالا جاتا ہے، وہ چاہے اضافی ٹیکس کی شکل میں ہو، مہنگائی کی شکل میں ہو یا سرکاری بھتہ خوری کی شکل میں۔
چلیں یہ سب چھوڑیں،،، پنجاب حکومت کی آپ اشتہار بازی چیک کریں، عقل کے اندھوں کو بھی ان اشتہارات کو دیکھ کر شرم آرہی ہے کہ کس طرح بے دردی سے قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اربوں روپے کے اشتہارات منٹوں میں اُڑائے جا رہے ہیں،،، جن کی اہمیت کسی ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ہے۔ کیوں کہ انہیں کسی نے دیکھنا بھی پسند نہیں کیا، بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ بندر کے ہاتھ میں ماچس آچکی ہے۔ بلکہ اس طرح تو خزانے کی لوٹ مار کوئی جواری بھی نہیں کرتا ہوگا جس طرح یہ کر رہے ہیں۔ ہمیں خوشی تھی کہ ایک نوجوان وزیر اعلیٰ پنجاب آئی ہیں،،، اور وہ ایسے ایسے کام کریں گی کہ جو مثالی ہوں گے،،، مگر وہ تو اپنے چچا شہباز شریف کو بھی کاسمیٹکس پراجیکٹس میں پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔ وہ ذاتی تشہیر کے لیے ہر حد گزرجانا چاہتی ہیں۔۔۔ بلکہ یوں لگ رہا ہے جیسے انہیں دوبارہ وزارت اعلیٰ کبھی ملنی ہی نہیں ہے۔ اور پھر غیر ترقیاتی کاموں میں یہ رویت ہلال کمیٹی بھی ہے جس پر ہم سالانہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، حالانکہ ان پیسوں سے ہم ایک پورا کالج یا یونیورسٹی چلا سکتے ہیں۔
لہٰذاغیر ترقیاتی اخراجات نے عوام کو ڈبو دیا ہے،،، اب یہ جتنے بھی وزراءنے حلف اُٹھایا ہے، یہ سب ارب پتی لوگ ہیں ،،، لیکن آپ دیکھ لیجئے گا کہ انہیں حلف اُٹھانے کے بعد پوری مراعات بھی چاہیے، سرکاری گاڑیاں بھی چاہیے، مکمل سٹاف بھی چاہیے، تنخواہ بھی چاہیے، ،، حالانکہ یہ حلف اُٹھانے سے پہلے بھی زندہ تھے، بغیر پروٹوکول کے بھی شاہانہ زندگی گزار رہے تھے، لیکن انہیں ایک دم سکیورٹی بھی چاہیے ہوگی، پھر ایک دم ان کی جانوں کو بھی خطرات ہوں گے،،، ان میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوں گے، جنہیں سکیورٹی کی ضرورت بھی نہیں ہے ،،، بلکہ سوال اُٹھتا ہے کہ اُنہیں کسی نے کیوں مارناہے؟
بہرکیف ایک طرف تو حکومت سادگی اور کفایت شعاری اور اخراجات کم کرنے کی باتیں کرتی ہے دوسری جانب حکومت نے وزرا کی لمبی لائن لگا دی ہے، ایک طرف آئی ایم ایف کو کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے اخراجات کم کر رہے ہیں، تو دوسری جانب وزرا ان کے عملے اور دیگر اخراجات میں کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔اگر ایک وفاقی وزیر تنخواہ نہیں بھی لیتا تو بھی اس سے منسلک دیگر اخراجات لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ کابینہ میں توسیع حکومت اور وزیراعظم کی بدنامی کا باعث بنے گی اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ان حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وفاقی کابینہ میں توسیع کرنے سے وزارتوں یا حکومت کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی، ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ وزرا کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی تاہم حکومت کی کارکردگی بالکل بھی متاثر کن نہیں رہی ہے۔ کابینہ اور حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی طرح اپنے اخراجات کو کم سے کم کریں اور ایسے اقدامات کریں کہ معیشت پر بہت کم بوجھ پڑے۔
بہرحال ہمارے قومی لائف سٹائل نے ہمیں عالمی سطح پر مقروض قوم بنا کر رکھ دیا ہے، قرض کی مے پیتے پیتے ہم اس خمار میں مبتلا رہے ہیں کہ کسی دن ہماری یہ فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ حکومتی اور معاشرتی سطح پر ہم نے سادہ طرزِ زندگی کو عرصہ ہوا خیرباد کہہ دیا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ یا پھر حکومت جب تک وہ اپنی آمدنی کو اخراجات سے زیادہ نہیں کرتی، کبھی مطمئن زندگی نہیں گزار سکتی، ہماری حکومتوں نے کبھی اس بارے میں نہیں سوچا کہ اپنے اخراجات کیسے کم کریں۔سرکاری گاڑیوں کی بہتات، پھر ان کی مرمت وغیرہ اور سرکاری افسران کے لیے دیگر مراعات نوکرشاہی کے شاہانہ زندگی کی مثال ہے حالانکہ ہمارے پاس اس کے لیے وسائل موجود نہیں ، لیکن ہم طبعاََ کرپٹ لوگ ہیں،،، احساس سے عاری قوم ہیں،،، تبھی ہمیں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ کسی قسم کی شرمندگی محسوس ہوتی
[Guest Column]