وزارتِ عُظمی

از عمارہ خانم
خان صاحب بہت بہت مُبارک ہو آپ اس غریب عوام اور امیر سیاستدانوں کے بائسویں وزیرِ اعظم مُنتخب ہو گیٔ اور آپ نے حلف بھی اُٹھا لیا ہے ، لیکن جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا وہ پوری قوم نے دیکھا اور آپ کو معلوم ہونا چاہییٔ ایسا مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیںکہ آپ ان حالات سے نبردو آزما ہو پائیں گے؟ آپ کو ہو یا نہیں لیکن اس وقت قوم کو پورا یقین ہے کہ آپ ان مسائل پر قابو پالیں گے اور جتنے بھی وعدے کییٔ ہیں آپ اُنہیں ضرور پورا کریں گے۔ اُمید ہے قوم کے اس اعتماد پر آپ پورے اُتریں گے۔
اس مُلک میں ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ خُدا کی پناہ !!
ہم ایک چھوٹا سا واقعہ آپ کے گوش گزار کر دیتے ہیں کہ ایک ہوایٔ جہاز اُڑان میں مُلک کی ایک معزز شخصیت سفر کر رہی تھیں اور اُن کے ساتھ والی سیٹوں پر ایک باپ بیٹا بیٹھے تھے جوکہ سیاستدان تھے وہ بھی محو پرواز تھے اورآپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ گفتگو کا موضوع کچھ یوں تھا کہ باپ بیٹے سے کہہ رہا تھا کہ فلاں منسٹری مل جاے ٔ تو سارے خرچے پورے ہو جائیں گے اور ان کے صاحبزادہ صاحب فرما رہے تھے کہ اگر فلاں منسٹری مل جاے ٔ تو خرچے پورے ہو نے کے ساتھ ساتھ آئندہ الیکشن سے بھی کافی کچھ مل جاے ٔ گا۔ یاد رہے کہ ان باپ بیٹا کے ساتھ بیٹھی شخصیت کا تعلق سیا ستدانوں کی برادری سے نہیں اور نہ ہی ان باپ بیٹا کو یہ معلوم تھاکہ ساتھ کون بیٹھا ہے۔ اب آپ بتائیے کہ باپ کسی خاندان میں ایک اہم اور مثالی شخصیت ہوتا ہے ، لیکن یہ کیسا باپ تھا جو اپنے بیٹے کی ایسی تربیت اور بیٹے کے سامنے باپ کا کیا کردار باقی رہ گیا؟
فلحال یہ ایک چھوٹا سا واقعہ یہاں لکھا ہے جس میں بہت کچھ چھپا ہے کہ کس قسم کی اشرافیہ انتخابات میں شامل ہوتی ہے ۔ خواہ وہ کویٔ بھی سیاسی پارٹی ہویا فرد ۔ حالت یہ ہے کہ بد عنوان ٹولہ اپنے بچاؤ کے لییٔ ہر نا جائز طریقہ اپنا رہا ہے کہ شائد کویٔ دباؤ میں آکر ان کی جان چھوڑ دے، لیکن قوم اب باشعور ہو چکی ہے اور ایسا ہو تا دور دور تک نظر نہیں آتا۔
ایسی جگہوں پر آگ لگی جہاں پراُن منصوبوں کا ریکارڈ تھا جن میں بد عنوانیاں ہوئیں اور خان صاحب خیر سے ان میں آپ کی پارٹی کی ایک ATMکا نام بھی گونجتا ہے ، اس کے علاوہ آپ کی اپنی پارٹی میں بھی گروہ بندی ہے۔ اب آپ کا اصل امتحان یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ آپ ان تمام برایؤں کا خاتمہ کس طرح سے کرتے ہیں۔ یقین کیجییٔ کہ اگران برایٔو ں کو جڑ سے اُکھاڑکر پھینک دیا توآئندہ انتخابات میں کو یٔ سیاستدان الیکشن میں حصہ لینے والا نہیں ملے گا، کیونکہ جس مقصد کے لییٔ انتخابات میں حصہ لینا ہے جب وہ پیدا گیری ہی نہیں ہو گی تو فائدہ کیا۔ لہٰذا صہیح اور سچا انسان جو کہ عوام کا درد رکھتا ہو گا وہی آگے آے ٔ گا۔ اس طرح نہ کویٔ بندہ رہے گا نہ کویٔ بندہ نواز، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں مُڑ مُڑ اپنوں کو۔ اب ہر کام قانون کے دائرے میں رہ کر ہی ہوں اسی میں سب کا بھلا ہے۔ بس عمران خان اس قوم کے خواب کو ریزہ ریزہ مت ہونے دیجییٔ گا۔
اﷲتعا لیٰ اس مُلک اور عوام کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین !)

2 Comments

  1. Iffat mughal Reply
  2. Ziyaad Khan Reply

Leave a Reply