نظریہ پاکستان’ کی حقیقت’

quaid e azam muhmmad ali jinnah and the reality of pakistan ideology nazriya pakistan ki haqeeqat

– مصنف : احمد طارق –

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 70 سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ نہیں پتا چل سکا کہ پاکستان کن مقاصد کیلئے بنا؟ ہمارے قائد جناح نے یہ ملک کیوں بنایا؟ یہاں میں نظریہ پاکستان کا لفظ خود ہی استعمال نہیں کروں گا کیونکہ اس لفظ کو محمد علی جناح نے کبھی استعمال نہیں کیا تھا، 1962 میں تاریخ کو مسخ کرنے کیلئے پہلی بار اس لفظ کا استعمال کیا گیا۔۔۔ خیر! سب سے اہم سوال ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا ہمارا ملک واقعی اسلام کے نام پر بنا جیسا کہ ایک مخصوص طبقہ اس کا دعویٰ کرتا ہے۔ تو اس کا جواب ہے ہرگز نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح روزمرہ کے کاروبار حکومت میں مذہب کا دخل نہیں چاہتے تھے، وہ جس قسم کا پاکستان چاہتے تھے اس کی بنیادیں سیکولر تھیں اور ان کا خیال تھا کہ کچھ وقت گزر جانے کے بعد ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، اس کی سب سے بڑی مثال ہمیں ان کی 11 اگست 1947 کی تقریر سے ملتی ہے جو انہوں نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی۔

اس تقریر کو دراصل آئین پاکستان کا دیباچہ ہونا چاہیئے تھا کیونکہ یہی وہ تقریر ہے جس میں آپ نے پاکستان کے آئین کے بنیادی خدوخال واضح کردیئے تھے۔ اس تاریخی تقریر میں قائداعظم کے الفاظ تھے “اگر آپ اپنا ماضی تبدیل کرلیں اور اس جذبہ کے ساتھ اکٹھے کام کریں کہ اس بات سے قطع نظر کہ اس کا کس فرقہ سے تعلق ہے، ماضی میں اس کے اور آپ کے تعلقات سے قطع نظر، اس کا رنگ، ذات، نسل، کیا ہے، وہ اول تا آخر اس مملکت کا شہری ہے جس کے مساوی حقوق ہیں تو پھر آپ جو ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیئے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہندو رہیں گے نہ مسلمان، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے تو نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے لیکن سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری ہونے کے حوالے سے۔ اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں اب آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا خواہ کسی بھی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں”۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھی قائد اعظم کی تاریخی تقریر جسے اس وقت کے وزیرخزانہ چوہدری محمد علی نے پریس ایڈوائز جاری کرکے سینسر کردیا، صرف یہ ہی نہیں دائیں بازو کی جماعتوں نے اس تقریر کو تاریخ کی تقریباً تمام کتابوں سے غائب کروادیا۔

اسی طرح 1946 میں ہونے والے دہلی کنونشن کی قرارداد پاکستان میں جناح نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ “ہم کسی تھیوکرٹیک ریاست کے قیام کیلئے نہیں لڑ رہے بلکہ ہماری جنگ تو معاشرتی اور معاشی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی ہے۔”

آزادی سے 3 مہینے قبل مئی 1947 میں جب بین الاقوامی نیوز ایجنسی رائٹرز کے نمائندہ مسٹر ڈون کیمپبل نے قائداعظم کا انٹرویو کیا تو جناح نے انہیں صاف الفاظ میں کہا کہ “میں پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتا ہوں جہاں جمہوریت نافذ ہو اور جہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق ملیں۔ اس طویل انٹرویو میں انہوں نے کہیں بھی اسلام یا اسلامی ریاست کا لفظ ایک بار بھی استعمال نہیں کیا۔”

بے شمار تقریروں کے علاوہ ہمیں ایسے بہت سے ثبوت ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے، جیسے کہ 15 اگست کی صبح کو جب قائد جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر حلف اٹھایا تو اس حلف کی عبارت برطانوی حکومت کی تجویز کردہ عبارت سے کافی مختلف تھی۔

دراصل برطانوی حکومت نے حلف نامے کی جو عبارت تجویز کی تھی، اس کا متن یہ تھا “میں۔۔۔۔۔ حلف اٹھاتا ہوں کہ شہنشاہ معظم شاہ جارج، اس کے وارثوں اور جانشینوں کا قانون کے مطابق وفادار اور سچا اطاعت گزار ہوں گا۔ پس اے خدا میری مدد فرما۔”
لیکن قائداعظم نے اسے قبول نہ کیا بلکہ ایک علیحدہ عبارت تجویز کی، جس کی برطانوی حکومت نے توثیق کردی۔ متن یہ ہے “میں محمد علی جناح باضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے آئین کا جو کہ قانوناً نافذ ہے، سچا وفادار اور اطاعت گزار رہوں گا اور یہ کہ میں شہنشاہ معظم شاہ جارج ششم، اس کے وارثوں اور جانشینوں کا بطور گورنر جنرل پاکستان، وفادار رہوں گا۔”

یہاں سب سے اہم بات نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ جناح نے پاکستان کے آئین سے وفاداری کو شامل کیا اور اسے اولیت دی اور ایک اہم جملہ: “پس اے خدا میری مدد فرما کو حذف کردیا۔” اس سے پتہ چلتا ہے کہ جناح کاروبار حکومت میں مذہب کا دخل نہیں چاہتے تھے بلکہ آئین کی بالادستی کو اولیت دیتے تھے۔ قائد جناح نے ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو نہ صرف وزیر قانون بلکہ آئین ساز اسمبلی کا پہلا چیئرمین بھی مقرر کیا۔ مزید برآں ایک احمدی، سر ظفر اللہ خان کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ خود سوچیے، کیا قائد جناح اس ملک میں اسلامی قانون کی بالادستی چاہتے تھے؟ اسی طرح پاکستان کا پہلا قومی ترانہ بھی ایک ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد نے لکھا، لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد ایک نیا ترانہ 1952 میں حفیظ جالندھری سے لکھوایا گیا۔ قائداعظم کی زندگی کے دوران اسی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کا آغاز کبھی تلاوت قرآن پاک سے نہیں ہوا بلکہ اس اسمبلی میں تلاوت قرآن پاک کی ابتدا قائد جناح کی وفات کے بعد 1949 میں ہوئی۔ جب تک ہمارے قائد حیات تھے تب تک ہمارے ملک میں 22 سرکاری چھٹیاں ہوا کرتی تھیں جن میں 25 سے 31 دسمبر تک کی کرسمس کی چھٹیاں بھی شامل تھیں، لیکن یہ سلسلہ 1960 میں ختم کروادیا گیا۔

اگر یہ ملک اسلام کے نام پر بن رہا ہوتا تو مذہبی جماعتیں کبھی بھی پاکستان بننے کی مخالفت نہ کرتیں، حقیقت یہ ہے کہ آزادی سے قبل برصغیر میں 5 مذہبی جماعتیں تھیں اور ان 5 کی 5 جماعتوں نے پاکستان بننے کی شدید مخالفت کی، جواز یہ دیا گیا کہ قائد پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ بلکہ ایک مذہبی جماعت مجلس احرار ہند نے 1944 میں قائداعظم کو آفر کی تھی کہ آپ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کردیں، ہم آپ کا پورا ساتھ دیں گے، لیکن قائداعظم نے یہ آفر ٹھکرادی۔

برصغیر کو متحد رکھنے کیلئے قائداعظم آخر تک کوششیں کرتے رہے اسی لیے وزارتی مشن منصوبہ کو کامیاب بنانے کیلئے مسلم لیگ نے جو جدوجہد کی اس سے کسی کو انکار نہیں۔ یاد رہے کہ اس اسکیم کے تحت امور خارجہ، دفاع، مواصلات اور خزانہ مرکز کو سونپے گئے تھے جہاں ہندو اکثریت کے ساتھ ملکر سیکولر بنیادوں پر کام ہوسکتا تھا۔ جناح کے نزدیک متحدہ ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک کنفڈریشن یعنی گروپنگ اسکیم اس پاکستان سے زیادہ قابل ترجیح تھی جو بعد میں معرض وجود میں آیا۔ کیا قائداعظم گروپنگ اسکیم اسلامی نظام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے حاصل کر رہے تھے؟ خیر! جب وزارتی مشن منصوبہ کانگریس نے منظور نہ کیا تو برصغیر کو متحد رکھنے کی آخری کوشش بھی دم توڑ گئی۔ اس کے بعد بھی جب تقسیم کی بات ہوئی تو قائداعظم نے اس پاکستان کا مطالبہ نہیں کیا تھا جو آج دنیا کے نقشے پر موجود ہے بلکہ جناح نے 6 صوبوں پنجاب، بنگال، سندھ، سرحد، بلوچستان اور آسام کی ایک علیحدہ مملکت بنانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کی آبادی کے کل حصے میں سے تقریباً 66 فیصد مسلمان جبکہ 34 فیصد غیر مسلمان شامل تھے، تو سوال یہ ہے کہ 34 فیصد غیر مسلمانوں کی آبادی کے ساتھ قائداعظم کونسی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے؟ قائداعظم تو مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی جنگ لڑ رہے تھے، اسی لیے انہوں نے اس وقت کی 23 فیصد والی آبادی کلکتہ کے بارے میں کہا کہ “کلکتہ کے بغیر پاکستان ایسے ہی ہے جیسے ایک انسانی جسم ہو، لیکن اس کا دل نہ ہو”۔۔۔۔۔

دراصل کلکتہ اس وقت برصغیر کا سب سے بڑا معاشی حب تھا، جس کو قائداعظم پاکستان میں شامل کرنے کے شدید خواہاں تھے۔ قائداعظم مسلمانوں کو معاشی طور پر اتنا مضبوط دیکھنا چاہتے تھے کہ انہوں نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی بھرپور مخالفت کی، بنگال کی تقسیم کے تو وہ اس حد تک خلاف تھے کہ تقسیم شدہ بنگال کی پاکستان میں شمولیت کی بجائے انہوں نے بنگال کی ایک علیحدہ آزاد مملکت کو فوقیت دی۔ مارچ 1947 میں پنجاب کی تقسیم کے حوالے سے سکھ سرداروں سے ملاقات کے دوران قائداعظم نے شدید خواہش کا اظہار کیا کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی باتیں نہ کی جائیں، ہم اپنے ملک میں آپ کو ہر قسم کے حقوق دیں گے، لیکن ان کی یہ آفر سکھ سرداروں نے ٹھکرادی کیونکہ اس ملاقات سے کچھ روز قبل راولپنڈی میں سکھ مسلم فساد پربا ہوگئے تھے اور یوں قائد کی پنجاب کو متحد رکھنے کی خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔

اگر ہم تاریخ پر جذباتی ہونے کی بجائے غیر جانبداری سے نظر دہرائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان بنانے کی تحریک مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی زندگی بہتر بنانا تھی نہ کہ انہیں مذہبی حقوق دینے کی (کیونکہ مساجد تو پہلے ہی برصغیر میں موجود تھیں جہاں مسلمان باقاعدگی سے عبادات ادا کرتے تھے) ویسے ہی پاکستان کسی جہاد کے سلسلے میں معرض وجود میں نہیں آیا اور نہ ہی کسی مذہبی جماعت نے پاکستان بننے کی حمایت کی۔ دراصل محمد علی جناح پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے اور ہمارے ملک کی ترقی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے جس کا خواب ہمارے قائد جناح نے دیکھا تھا یعنی کہ ایک سیکولر پاکستان جہاں ہر شخص کو بلا امتیاز مذہب، نسل اور رنگ مکمل آزادی ہ

|Pak Destiny|

4 Comments

  1. Anjum Khair Muhammad Reply
  2. Aamir Sajjad Reply
  3. Najam Shah Reply
  4. Aamir Sajjad Reply

Leave a Reply