!دو چانس

two chances

– آصف مسعود –

ڈاکٹر محمد جاوید کہتے ہیں کہ اللہ ہر ایک بندے کو دو چانس ضرور دیتا ہے سدھرنے کے، یہ کہانی بھی اصل زندگی سے لی گئی ہے، یہ میرے دوست کی سچی کہانی ہے، جس طرح اس نے مجھے سنائی اسی طرح آگے بیان کر رہا ہوں۔

روزانہ کی طرح ہم آج بھی کلاسز ختم ہونے کے بعد کیفیٹیریا میں بیٹھے تھے، میں اور صابر، ہم دونوں کا تعلق اندرون لاہور سے ہے، ہمارا تیسرا دوست عمیرایک گائوں سے تھا اور یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتا تھا، ہم بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ عمیر بھی آگیا، اس کے لئے بھی چائے کا آرڈر دیا، وہ کہنے لگا کہ آج تو چائے کے پیسے میں دوں گا بلکہ دعوت لے لو، ہم نے پوچھا کہ بھائی ایسا کون سا خزانہ ہاتھ لگا ہے، تو اس نے بتایا یارو آج تو موج ہو گئی، ہوسٹل کے کوریڈور سے 500 روپے ملے ہیں، 1996 میں یہ ہم طالب علموں کے لئے کافی بڑی رقم تھی، ہم کافی مزہبی بچے تھے، ہم نے کہا نہیں نہیں یہ پیسے نہیں کھا سکتے گناہ ہو گا، پیٹ میں نہیں لے جانے، اس کو کسی حرام کے کام میں خرچ کرتے ہیں، تو فیصلہ یہ ہوا کہ ان پیسوں سے گانا سنا جائے،

شہر میں میرے ابا کی چھوٹی سی دوکان تھی جس پر یونیورسٹی سے آنے کے بعد میں بھی بیٹھا کرتا تھا، وہاں ابا کے ایک دوست بھی آتے تھے، لڈن چچا وہ اپنے دور میں کافی رنگین مزاج رہے تھے، ہم نے سوچا ان سے پوچھا جائے کہ گانا سننے کا کیا درست طریقہ ہے، لیکن ہم نے ان کو یہ کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ تماش بین ہم خود تھے، لڈن چچا نے اپنے ماہرآنہ تجربہ سے ہمیں نوآزہ، اب ہم گانا سننے کے لئے جانے کو تیار تھے، دن مقرر کیا گیا، اور ہم تینوں دوست نوٹوں کی نئی کاپیاں لے کر روآنہ ہو گئے، اس وقت ایک اور دو روپے کے نوٹ چلتے تھے، ہم نے دو دو کے نوٹوں کی دو اور ایک کی ایک کاپی لی، بازار کا چکر لگایا، تمام دوکانیں دیکھیں جہاں ہمیں سب سے خوبصورت طوائف نظر آئی اس دوکان میں گھس گئے، ایک یا ڈیڑھ گانے میں پیسے ختم ہو گئے اور ہم لڑکھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ باہر آگئے، ڈر لگ رہا تھا کہ کسی نے دیکھ نہ لیا ہو، پولیس بھی بڑے خطرناک انداز میں وہاں گشت کر رہی تھی، ہم نے وہاں سے نکلنے میں ہی خیریت جانی، عمیر میرے اور صابر کے درمیان میں تھا، گھبراہٹ میں اسے نالی نظر نہیں آئی، میں اور صابر تو آگے نکل گئے اور بٹ صاحب(عمیر) سیدھا نالی میں، خیر کسی نہ کسی طرح واپسی ہو گئی، یہ واقعہ دوسرے دوستوں کو بھی سنایا کچھ نے ملامت کی اور کچھ نے حوصلہ افزائی۔

ایک دن دوکان پر بیٹھا تھا، گاہکوں کا رش تھا، میری عادت تھی کہ اپنا والٹ دوکان کی دراز میں ڈال دیتا تھا، دوکان کے اندر بہت ہی قریبی جاننے والوں کے علاوہ کوئی نہیں آسکتا تھا، جب شام کو والٹ جیب میں ڈالنے لگا تو والٹ غائب تھا، ابھی چند دن پہلے رو ساڑھے تین سو روپے کا لیا تھا، تین ہزار روپے نقد، بائیک کے کاغذات، لائیسنس اور ٹیلی فون انڈیکس، بہت ڈھونڈا نہیں ملا، چند دن بعد دوکان کے ایک کونے سے سے صاف کاغذ میں لپٹے ہوئے بائیک کے کاغذات لائیسنس اور انڈکس مل گئی، لیکن پرس اور پیسے اس مہربان نے رکھ لئے، کوئی واقف ہی تھا جو امپورٹینٹ ڈاکیومینٹ واپس کر دیئے، خیر بات آئی گئی ہوگئی، میں بھی بھول گیا،

ہمارے کیفیٹیریا کے مالک خان صاحب کو جب پتہ چلا کہ ہم بہت خوبصورت عورت کا گانا سن کر آئیں ہیں، تو انہوں نے فرمائش شروع کر دی کہ مجھے بھی لے کر چلو، وہ پیسے خرچ کرنے کے لئے بھی تیار تھے، لیکن صابر اور عمیر اب کسی صورت بھی جانے کے لئے تیار نہیں تھے، میرے اندر تڑپ تھی کہ میں بلو (طوائف کا نام جو ہم نے رکھا تھا) کو دوبارہ دیکھوں، خان صاحب بھی بلو کی تعریفیں سن سن کر تقریبا اس کے نادیدہ عشق میں نیم دیوانے ہو چکے تھے، اسی کھیل کود اور پڑھائی میں پتہ ہی نہیں چلا اور سال گزر گیا، یونیورسٹی کا اختتام بھی ہو چکا تھا، کیفیٹیریا پر خان صاحب سے اختتامی ملاقات میں خان صاحب نے پھر چپکے سے میرے کان میں اپنی خواہش کا اظہار کیا، میں خود بھی شاید یہی چاہتا تھا، اور ہم نے گانا سننے کے لئے جانے کا پختہ ارادہ کر لیا، مقررہ دن ہم پھر بلو کی بیٹھک میں پہنچ گئے، گانا سننے کے بعد جب ہم باہر نکلنے لگے، تو بڑی بائی جی جنہوں نے شاید مجھے پہچان لیا تھا، اپنے ایک کارندے سے بولیں، “جا بائو نو کھر دکھایا۔” شاید وہ میری آنکھوں میں بلو کے لئے پسندیدگی کو پہچان چکی تھیں، ہم اس کارندے کی معیت میں نکلے، وہ ہمیں ایک تنگ سی بدبودار گلی میں لے گیا اور ایک ٹاٹ پڑے دروازے کہ طرف اشارہ کر کے کہنے لگا، “اگلی واری ایتھے ای آنا اے،”

میرے پیر زمین پر نہیں پڑ رہے تھے، جیسا کہ دنیا فتح کر لی ہو، اب انتظار یہ تھا کہ کب جایا جائے، ایک دن مجھے انار کلی جانا تھا، اس وقت میو ہسپتال سے آر پار راستہ گزرتا تھا تو ہم شارٹ کٹ کے لئے گوال منڈی والی سائیڈ سے ہسپتال میں داخل ہو کر نیلا گنبد نکل جاتے تھے، جب میں انار کلی بازار پہنچا اور دوکان دار کو پیسے دینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو والٹ غائب تھا، خیر گھر واپس لوٹ آیا، رات کو جب سونے کے لئے بستر پر لیٹا تو اچانک دماغ کی بتی جل گئی، اب میں حساب کتاب کر رہا تھا کہ پہلے جب گانا دیکھ کر آیا تو تقریبا ساڑھے تین ہزار کا نقصان ہوا، دوبارہ گانا دیکھ کر آیا تو پھر چودہ سو روپے والٹ سمیت گر گئے، سمجھ آرہی تھی کہ اللہ کے حکموں کے خلاف چلوں گا تو یہی ہو گا، اب اللہ سے بات شروع کی، ” اللہ میاں اگر تو نے اس لئے میرا نقصان کیا ہے کہ میں مجرا دیکھ کر آیا ہوں، تو میرا پرس واپس کر دے، اب میں دوبارہ ایسا کام نہیں کروں گا،” جتنی سمجھ تھی ویسی ہی دعا کر لی، نادان اللہ سے شرطیں باندھ رہا تھا، پر اللہ کے کام نرآلے ہیں، وہ سب کی سنتا چاہے ہمیں مانگنا آئے یا نہ آئے، صبح صبح کوئی مجھے جھنجوڑ کر اٹھا رہا تھا، عارف آٹھ، تیرا پرس ملا ہے کسی کو، وہ میر ی بہن تھی، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے، میرے انگلش کے ٹیچر جنہوں نے مجھے کئی سال پہلے انگریزی پڑھائی تھی، اور وہ شہر سے کینٹ شفٹ بھی ہو چکے تھے، انہیں کسی نے فون کر کے کہا کہ آپ کے کسی واقف کا پرس ملا ہے، کیونکہ ٹیلیفون اینڈکس میں سب سے اوپر نام انہیں کا تھا، انہوں نے بتایا کہ تمہارا والٹ میو ہسپتال میں نرسنگ سکول کی وارڈن کے پاس ہے جا کر لے لو، جب نرسنگ سکول پہنچا تو وارڈن صاحبہ نے پہلے تو ڈانٹ پلائی کہ ہسپتال میں اتنی تیز بائیک چلاتے ہو، ہماری نرس پرس گرنے پر تمہیں پکارتی رہی اور تم نے سنا ہی نہیں، خیر تو اس طرح دوسرے چانس پر اللہ نے کان سے پکڑ کر واپس موڑ دیا ورنہ پتہ نہیں کس نالی میں پڑا ہوتا، شاید یہ ماں کی ان دعاؤں کا اثر جو گھر سے نکلتے وقت وہ ہمارے لئے کرتی تھی،

اللہ کا خصوصی کرم اور ماں کی دعا!

|Pak Destiny|

Leave a Reply