
کسی بھی ملک کی معیشت میں کوئی نہ کوئی ایک ایساشعبہ اپنا رول ضرور ادا کرتا ہے۔ جس کو اس ملک کی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔اور اس ملک کی حکومت اس شعبے پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہم ہر اس بندے کے خلاف ہیں جو تھوڑا کامیاب ہے۔ہراس شعبے میں مشکلات بڑھا دیتے ہیں جو ملکی معیشت میں اپنا اہم رول ادا کر رہا ہوتا ہے۔
اگر ہم اپنے ملک کی معاشی سر گرمیوں پر نظر ڈالیں تو سب سے اوپر زراعت نظر آئے گی۔جب سے یہ نئی حکومت بر سر اقتدار آئی ہے کسان کے لئے آئے روز کوئی نئی افتاد کھڑی کر دیتی ہے۔ کبھی اس کو مافیا سے تشبہیہ دی جاتی ہے۔ کبھی گندم کی قیمت کم کر کے کسان کی معاشی حالت کی کمر توڑ دیتی ہے۔گنا مافیا کو کھلی چھوٹ ہے جیسے چاہے کسان کا استحصال کرے۔کھادیں۔ ہائبرڈ بیج بیچنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوئی ایسا میکا نزم نہیں ہے جس سے کسان حضرات کو بتایا جا سکے کہ اس بار ملک میں کس فصل کو کتنا لگانا ہے۔مڈل مین ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔
جیسے پاکستان کی شہہ رگ کشمیر کو بولا جاتا ہے ایسے ہی چھوٹے کسان کے لئے اس کی معاشی ترقی کے لئے نہری پانی اس کے لئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔پتہ نہیں کیوں ہر سال نہری بابوؤں اپنے دفتروں میں اے سی کی ٹھنڈک میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس بار کسان کی شہہ رگ کو کیسے اور کتنا دبانا ہے کہ وہ گڑگڑاتا ہوا ان کے دردولت پر آ کر ماتھا رگڑے کچھ دان کرے تا کہ گلشن کا کاروبار چلے پھر اس کے لئے پانی کی کچھ دستیابی کا بندوبست کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ پریکٹس دہائیوں سے جاری ہے۔ جب بھی گندم کی فصل تیار ہونے کو ہوتی ہے سالانہ نہروں کی بندش اور بھل صفائی پروگرام کے بعد ان کو یاد آتا ہے کہ راجباؤں پر پانی کو کنٹرول کرنے والے آلات نصب کرنے ہیں۔کیا یہ اس نہری بندی کے اندر اندر یہ کام نہیں نپٹایا جا سکتا؟ اضافی دنوں تک پانی کی بندش فصل کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔پر نہری بابوؤں کی صحت پر کیا اثر وہ اپنا فرعونی رویہ قائم دائم رکھتے ہیں۔ہمیں پانی تقسیم اور اس کو کنٹرول کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن خدارا اس کے لئے لیول اور کسان کے پانی کے ٹائم ٹیبل کو مد نظر رکھنا ضروری کہ آیا اس لیول پر اس کو دئے گئے ٹائم کے مطابق اپنی فصلوں کو سیراب بھی کر سکتا ہے کہ نہیں؟
خاص کر وسطی پنجاب جہاں زیر زمیں پانی ٹھیک نہیں ہے۔ کلراٹھی زمینیں ہیں۔ جو زمین کا پانی فصل کے لئے استعمال نہیں کر سکتے ان کے لئے خصوصی پیکج ہونا چاہئے اور اسی طرح جو ٹیل پر بیٹھے ہیں ان کو بھی فصل کے لئے پانی کی کمی کا شدید سامنا ہے۔ گندم کسان اور ملک کے لئے بہت اہم فصل ہے لیکن نہری بابوؤں سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ اور جان بوجھ کے کسان کہ شہہ رگ پر حملہ کرتے ہیں۔ کیونکہ خون ان کے منہ کو لگ چکا ہے۔خدارا ان نہری بابوؤں کے ظلم کے چنگل سے نجات دلائی جائے کسان کو فصل کے لئے مطلوبہ ضرورت کے مطابق پانی کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر پانی کی کمی کا مسئلہ ہے تو کسان کے پانی کے وقت میں اضافہ کیا جائے خاص کر گوگیرہ برانچ جہاں زیادہ تر کسان کا انحصار صرف اور صرف نہری پانی پر ہے۔ اس میں جھنگ کی تحصیل ، ٹوبہ ٹیک سنگھ گوجرہ اور اس کے نواحی علاقہ جات کو دوسروں سے زیادہ ترجیح دی جائے کیونکہ کسان زیر زمیں پانی استعمال کرنے سے قاصر ہے سب کے لئے یکساں قانون پانی کی ترسیل کے حوالے سے قرین انصاف نہیں ہے۔ان تحصیلوں کے کسان زیادہ تر آٹھ ایکڑ یا اس سے کم زرعی زمیں کے حامل ہیں۔اور ان کی نمائندگی کسی فورم پر بھی نہیں ہے۔جو ان کی شنوائی کر سکے۔ جاگیر دار طبقے کے لئے جو ایوان تک رسائی رکھتے ہیں ان کے لئے پانی مسئلہ نہیں ہے ان کی ایک فون کال پر نہری عملہ ہاتھ باندھ کے کھڑا ہوتا ہے۔ اور نہری بابؤں ان کے لئے وہی کرتے جیسےپیامن چاہے
پانی کا مسئلہ خالصتا چھوٹے مجبور بے بس کسان کا ہے۔ پانی کی وافر دستیابی سے ہی ہم زراعت میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ اور یہ چھوٹا کسان ہی اس ملک کی اکانومی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ان سے دشمنی چھوڑ دیں یاد رکھیں اس طبقے کی نمائدہ جماعت کوئی نہیں ہے۔ جس دن اس چھوٹے کسان نے ایکا کر لیا یا کوئی ایسا لیڈر بنا لیا تو سب کو دن میں تارے یاد آ جائیں گے۔ پھر وقت گزر چکا ہو گا مداوا ممکن نہیں رہے گا۔اس وقت سے بچنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ چھوٹےکسان کے لئے اب کوئی دوسری راہ نہیں بچی ہے۔ ان تمام نہری بابؤں پر انکوائری کروائی جائے جو جان بوجھ کے پانی کی بندش میں ملوث ہیں۔ اور جان بوجھ کے پانی کے انتہائی کم سطح پر کسان کو کھالوں میں دے رہے ہیں کہ ان کا جو سیراب کرنے کا وقت ہے اس سےبمشکل آدھ ایکڑ ہی سیراب ہوتا ہے۔کاش کہ لیول منظور کرنے سے پہلے گراؤنڈ اور اس علاقے کی نوعیت کو بھی مدنظر رکھا جاتا۔ دفاتر میں بیٹھ کے فیصلے کرنے سے ہم زراعت کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ بچی کھچی لٹیا بھی ڈبو دینے کے چکروں میں ہیں۔اللہ ہی ہم پر اپنا کرم اور فضل کرے۔ نہری بابوؤں کی فرعونیت سے بچائے امین
اتنے کم پانی کی دستیابی سے زراعت کرنا ممکن نہیں ہے خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ غریب کسان کی آہوؤں اور بد دعاؤں سے بچیں
مصنف : ڈاکٹر اعجاز احمد
