عربی زبان کا بل اور اچھا مسلمان ھونے کے درمیان تعلق

arabic pakistan language bill in senate passed neccessary education schools

– مصنف: احمد طارق –

گزشتہ دنوں ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا جسے بغیر کسی انتظار کے کثرت رائے سے منظور بھی کرلیا گیا۔ اس بل نے ایک مرتبہ پھر ہمارے ذہنی غلام ہونے کی تصدیق کی۔

جی ہاں! میں تعلیمی اداروں میں عربی زبان کی لازمی تعلیم کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بل کی بات کر رہا ہوں جسے خود کو لبرل کہنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کیا۔

بل کے متن میں کہا گیا کہ پہلی سے پانچویں جماعت تک عربی پڑھائی جائے اور چھٹی جماعت سے گیارہویں جماعت تک عربی گرامر پڑھائی جائے۔ اس بل کی مخالفت سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کی، جن کے اس اقدام کے بعد ان پر کفر کے فتوے بھی لگا دیئے گئےجبکہ باقی اراکین نے بل کی بھرپور حمایت کرکے خود کو پکا، سچا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی اور بل کی حمایت گویا ایسے کی گئی جیسے یہ بل ملک کے تمام مسائل حل کردے گا۔

ہماری حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے تو کیا ہی کہنے، ان کا خود کا تو کوئی نظریہ ہی نہیں اور ویسے بھی یہ لوگ غیر سنجیدہ مسائل کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے فرمایا کہ “اچھا مسلمان بننے کے لیے عربی سیکھنا ضروری ہے”۔ پس ثابت ہوا، اگر آپ کو عربی نہیں آتی تو آپ اچھے مسلمان نہیں~(بقول علی محمد خان۔۔۔۔)

خیر، اب تو بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا ہے یعنی اب ہمارے بچوں کو عربی زبان سکھائی جائے گی اور عربی سیکھنے کے بعد وہ خود بخود اچھے مسلمان بھی بن جائیں گے؟ دوسری جانب یورپ، امریکہ، بھارت، بنگلہ دیش سمیت مغربی دنیا میں سائنسی علوم کو زیادہ سے زیادہ نصاب میں شامل کیا جارہا ہے اور ایک ایسی نسل پیدا کی جارہی ہے جو کہ آنے والے معاشرے کی روشن خیال نسل ہوگی۔ ایک ایسی نسل جو تنگ نظر نہ ہو اور معاشرے کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرسکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ممالک نہ صرف سائنسی میدان میں بے پناہ ترقی کریں گے بلکہ یہ ممالک پہلے سے بھی زیادہ خوشحال ہوتے جائیں گے۔ ویسے اس بل پر ہمیں زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ عرب ممالک جو ہمیں منہ لگانا پسند نہیں کرتے، ان کی زبان کو ہم اپنے نصاب میں شامل کرکے ذہنی غلام ہونے کا ثبوت کیوں دے رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی لوگوں کی اکثریت محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو جبکہ محمود غزنوی کو اپنا مسیحا سمجھتی ہے۔ اپنے کلچر سے دور کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کیلئے سیاست میں اسلام کا عمل دخل ہماری اشرافیہ کا پرانا طریقہ واردات ہے جو شاید ابھی کئی برسوں تک چلے گا۔

ہمارے ملک کے معاشی حالات اس وقت سب کے سامنے ہیں۔ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آکر بے قابو ہوگیا ہے۔ محنت کشوں اور مزدوروں کی حالتِ زندگی اتنی خراب پہلے کبھی نہ تھی، جتنی آج کے دور حکومت میں ہے۔ ایسے میں حکمران طبقہ اصل مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایسی پچیدگیوں میں پڑگیا ہے جن کی ضرورت نہ پہلے کبھی تھی اور نہ ہی اب ہے۔ ملک و قوم کیلئے بہتر یہی ہوگا کہ ملک سے مہنگائی ختم کرنے اور اصل مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹھوس اقدام کیے جائیں تاکہ ان لوگوں کو بھی سکون کی زندگی نصیب ہوسکے، جنہوں نے عمران خان کو اپنا حکمران چنا تھا۔

|Pak Destiny|

One Response

  1. Anonymous Reply

Leave a Reply