The real story of PIA plane crash in Karachi – کراچی طیارہ حادثے کے چشم کشا حقائق

The real story of PIA plane crash in Karachi

-ارم سلیم-

22 مئی 2020 کو پاکستانی قوم کو پی آئی اے 8303 کے المناک حادثے میں 97 معصوم افراد کے جانی نقصان کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔کرونا کی وبا کی وجہ سے پہلے سے کسی حد تک افسردہ فضا، حادثے کی خبر سےمزید سوگوار ہوگئی۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جمعۃ الوداع کے موقع پر یہ اندوہناک خبر کسی پٹاخے کی طرح پھوٹی اور فورا سے بھی پیشتر چار سو پھیل گئی۔ جس نے پاکستانی قوم کے اجتماعی وجود کو اندر تک سے ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولرز گلڈ (PATCG) اس حادثے کے نتیجے میں اپنے پیاروں کی جدائی کا غم سہنے والے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔ اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالی مرحومین کے روحانی درجات میں بلندی عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ اس حادثے کے بعد عوام الناس، ذرائع ابلاغ، اور ارباب اختیار میں بہت سی غلط فہمیوں نے جنم لیا ہے۔ اور اس بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولرز گلڈ قومی سطح پر سول ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی واحد رجسٹرڈ، اور منتخب نمائندہ تنظیم ہے۔ جو کہ بین الاقوامی سطح پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئر ٹریفک کنٹرولرز ایسوسی ایشنز (International Federation of Air Traffic Controllers’ Associations) کی رکنیت رکھتی ہے۔ اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی عمومی فلاح و بہبود اور اس شعبے کی ترقی و ترویج میں اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لئے اس موقع پر ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی نمائندہ تنظیم ہونے کی حیثیت سے (PATCG) نے یہ مناسب سمجھا کہ ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے کردار و افعال سے متعلق بنیادی تصورات کو ایک عام فہم انداز میں قوم کے سامنے لایا جائے۔ تاکہ ایک عام آدمی بھی اس کو سادہ ترین انداز میں سمجھ سکے۔ یقینا یہ مضمون اے ٹی سی سے متعلقہ جملہ امور کا احاطہ نہیں کرتا۔ لیکن یہ ایک عام قاری کو اس شعبے کے بنیادی تعارف کو سمجھنےمیں مددگار ہوگا۔

ایئر ٹریفک کنٹرول کا بنیادی مقصد زمین اور فضا میں طیاروں کو آپس میں ٹکرانے سے بچانا، ہوائی اڈے کی حدود میں جہازوں کو مختلف رکاوٹوں سے دور رکھنا اور ایک منظم انداز میں تیزترین فضائی ٹریفک کو مرتب کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً جہازوں کی سلامتی سے متعلق پائلٹ کو تجاویز اور ہدایات جاری کرنا اور بوقت ضرورت سرچ اینڈ ریسکیو کے متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا ہوتا ہے.

ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر صرف کنٹرول ٹاور پر ہی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ درحقیقت ایئر ٹریفک کنٹرولر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مطلوبہ تجربے اور تربیت کے بتدریج مراحل طے کرنے کے بعد کنٹرول ٹاور، اپروچ کنٹرول یا ایریا کنٹرول سینٹر میں اپنے امور سرانجام دیتے ہیں۔

کنٹرول ٹاور کنٹرولر۔

ایک طیارہ اپنے سفر کا آغاز کرنے سے پہلے کنٹرول ٹاور پر موجود ایئر ٹریفک کنٹرولر سے انجن سٹارٹ کرنے اور ٹیکسی اور رن وے پر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ جو کہ اپروچ کنٹرول یونٹ اور ایریا کنٹرول سینٹر سے مشاورت اور زمین اور فضا میں دیگر جہازوں اور گاڑیوں کی آمدورفت کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہے۔

بعدازاں ٹاور کنٹرولر، اپروچ کنٹرولر کی مشاورت سے جہاز کو اڑنے کی اجازت دیتا ہے۔
کنٹرول ٹاور پر موجود ایئر ٹریفک کنٹرولر اپنی آنکھ یا دوربین سے دیکھ کر کر ایئرٹریفک کا جائزہ لیتا ہے اور فیصلہ سازی کرتا ہے۔ عمومی طور پر ٹاور کنٹرولر ایئرپورٹ کی حدود میں پانچ ناٹیکل میل تک جہاز کو کنٹرول کرتا ہے

اپروچ کنٹرول یونٹ۔

فضا میں بلند ہوتے ہی جہاز کا رابطہ اپروچ کنٹرول یونٹ میں تعینات ایئر ٹریفک کنٹرولر سے ہو جاتا ہے جسے اپروچ کنٹرولر کہتے ہیں ۔ جو اپنے دائرہ کار میں اسے دیگر جہازوں سے علیحدہ رکھتے ہوئے ممکنہ بلندی کا تعین کرتے ہوئے اڑان جاری رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ اپروچ کنٹرولر ایک بند کمرے میں ریڈار اسکرین کے سامنے بیٹھ کر فیصلہ سازی کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ریڈار کوریج نہ ہونے یا ریڈار کی کسی بھی تکنیکی مسئلہ کی وجہ سے بندش کی صورت میں وہ اپنے پروسیجرز کے مطابق کام کرتا ہے ۔ تقریبا تمام بڑے ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ اپروچ کنٹرول یونٹ قائم کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر اپروچ کنٹرول یونٹ ہوائی اڈے کی حدود سے لے کر 50 ناٹیکل میل تک ہوائی جہازوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

ایریا کنٹرول سینٹر

اپروچ کنٹرول یونٹ کے بعد جہاز کا کنٹرول ایریا کنٹرول سینٹر میں تعینات ایئر ٹریفک کنٹرولرز کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ ایریا کنٹرول سینٹر طیارے کے سفر کے زیادہ بڑے حصے کو کنٹرول کرتا ہے ۔ اپروچ کنٹرولرکی طرح ایریا کنٹرول یونٹ میں موجود ایئر ٹریفک کنٹرولر بھی ریڈار کی کوریج کے ایریا میں میں، بند کمرے میں بیٹھ کر کر ریڈار سکرین کے سامنے جہازوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ لیکن ریڈار کوریج سے باہر کے علاقوں میں یا کسی بھی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے ریڈار کی بندش کے باعث پروسیجر کنٹرول کرتے ہیں۔

پاکستان میں تقریبا 95 فیصد علاقہ اور سمندر ریڈار کوریج کے ایریا میں واقع ہیں۔ پاکستان میں اس وقت دو ایریا کنٹرول سینٹر لاھور اور کراچی میں کام کر رہے ہیں جبکہ تیسرا اسلام آباد میں زیر تکمیل ہے۔

ایریا کنٹرول سینٹرز کو مزید سیکٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ان پر متعین ایئر ٹریفک کنٹرولرز اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں فضائی ٹریفک کو منظم کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد جہاز کا کنٹرول ہمسایہ ایریا کنٹرول سینٹر یا منزل قریب آنے کی صورت میں متعلقہ اپروچ کنٹرولر کے سپرد کردیتے ہیں۔ جو کہ اپنے دائرہ اختیار میں جہاز کو زمین پر اترنے کے لئے ہدایات جاری کرتے ہیں اور پرواز کے آخری مرحلے میں منزل مقصود پر ٹاور کنٹرولر کے حوالے کردیتے ہیں۔

ایئر ٹریفک کنٹرولر کے کام کی حساسیت۔

بظاہر یہ انتہائی سادہ نظر آنے والا کام حقیقت میں انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ طیارے کے سارے سفر کے دوران کنٹرول ٹاور، اپروچ کنٹرول یونٹ اور ایریا کنٹرول سینٹر مسلسل نہ صرف آپس میں ضروری معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ بلکہ ہمسایہ ریاستوں اور فضائی دفاع سے متعلقہ اداروں کو بھی باخبر رکھتے ہیں۔

عمومی تاثر کے برخلاف ہوا میں بھی طیارے مختلف بلندیوں پر صرف طے شدہ روٹس پر ہی سفر کرتے ہیں۔

ایک ہی روٹ پر مختلف فضائی بلندیوں پر دونوں سمت میں طیارے محو پرواز ہوتے ہیں۔

جبکہ زمین پر موجود کسی بھی چوک کی طرح ہوا میں بھی مختلف فضائی روٹس ایک دوسرے کو قطع (Cross) کر رہے ہوتے ہیں۔

فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ زمین پر ایک ہی سطح (Level) پر سڑکیں ہوتی ہیں۔ جبکہ فضا میں مختلف روٹس اور فضائی بلندیوں (Flight Levels) پر درجنوں طیارے مختلف سمتوں میں بیک وقت محو پرواز ہوتے ہیں۔

زمین پر موجود ڈرائیور خود اپنی گاڑی کو اپنے سامنے، پیچھے اور دائیں بائیں سے آنے والی ٹریفک سے بچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جبکہ فضا میں یہی ذمہ داری ایک ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ہوتی ہے کہ وہ تمام جہازوں کو ہر ممکن طور پر مطلوبہ فضائی بلندی پر پہنچنے میں مدد کرے، اور رفتار کا تعین کرتے ہوئے دیگر جہازوں سے ٹکرانے سے بچائے۔ اور یہ سارا کام وہ RT یعنی وائرلیس سیٹ پر ہدایات جاری کرکے کرتا ہے.

ایئر ٹریفک کو منظم کرنے کا پیچیدہ عمل مقامی ملکی اور بین الاقوامی قوانین اور قواعد و ضوابط اور طریقہ ہائے کار (SOPs) کے مطابق سرانجام دیا جاتا ہے۔

ایئر ٹریفک کنٹرولرز سال کے 365 دن یہ ذہنی دباؤ سے بھرپور کام صبح دوپہر اور رات کی شفٹ ڈیوٹی میں کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات عارضی طور پر ٹاور کنٹرولر، اپروچ کنٹرولر اور ایریا کنٹرولرز باہمی رضا مندی اور مشاورت سے کسی جہاز کو دوسرے یونٹ کے دائرہ کار میں بھی خدمات کی فراہمی جاری رکھتے ہیں۔

اب کچھ غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1. ایئر ٹریفک کنٹرول اور پائلٹ کی گفتگو کا لیک یا ریلیز ہونا۔

ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ حالیہ طیارہ حادثے کے بعد ایئر ٹریفک کنٹرولر اور جہاز کے کپتان کی وائرلیس سیٹ پر ہونے والی گفتگو کسی نے لیک یا ریلیز کردی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ liveatc.net اور اس طرح کی دیگر ویب سائٹس اور موبائل ایپس پر دنیا کے تقریبا تمام بڑے ایئرپورٹس کی لائیو اور گزشتہ چند روز کی آرٹی (RT) ریکارڈنگ کوئی بھی عام شخص نہ صرف اپنے موبائل یا کمپیوٹر پر سن سکتا ہے۔ بلکہ اس کو ڈاؤن لوڈ کرکے کسی کے ساتھ شیئر (آگے بھیج) بھی کر سکتا ہے .

2. بیلی لینڈنگ۔

اگر جہاز میں کسی تکنیکی خرابی کے باعث لینڈنگ گیئر (جہاز کے پہیے) نہ کھل سکیں تو مروجہ طریقہ کار کے مطابق جہاز کا کپتان ایئر ٹریفک کنٹرول کو اس بات سے آگاہ کرتے ہوئے کنٹرول ٹاور کے سامنے سے نسبتا کم بلندی (Low Pass) پر پرواز کرتے ہوئے گزرتا ہے۔

تاکہ ایئر ٹریفک کنٹرولر اس بات کا دوربین سے جائزہ لے سکے کہ آیا لینڈنگ گیئر واقعتاً نہیں کھلے یا کھل تو گئے ہیں لیکن کسی خرابی کے سبب کاک پٹ میں موجود آلات اس کو کپتان کو ظاہر کرنے سے قاصر ہیں۔

اگر لینڈنگ گیئر نہ کھلے ہو تو جہاز کا کپتان ایک بار پھر چکر لگا کر (Go Around) دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ایئر ٹریفک کنٹرولر شعبہ ریسکیو اینڈ فائر فائٹنگ کو پیشگی خبردار کرتے ہوئے رن وے کے دونوں جانب فائر کریش ٹینڈرز (Fire Crash Tenders) تعینات کرنے کا حکم دیتا ہے۔
اس طرح کی لینڈنگ کو بیلی لینڈنگ (Belly Landing) کہتے ہیں.
بیلی لینڈنگ میں جہاز کا نچلا حصہ رن و ے کے ساتھ رگڑ کھا کر گزرتا ہے۔ جو کہ آگ لگنے کا باعث بن سکتا ہے۔

3. ایئر پورٹ سے باہر ریسکیو آپریشن۔

سول ایوی ایشن کے شعبہ ریسکیو اینڈ فائرفائٹنگ کی بنیادی ذمہ داری صرف ایئرپورٹ کی حدود (Perimeter) کے اندر کسی بھی طرح کی ہنگامی حالت سے نبٹنا ہوتا ہے۔ ایئرپورٹ کی حدود سے باہر کسی حادثے کی صورت میں فائر اینڈ ریسکیو کی بنیادی ذمہ داری متعلقہ شہری ادارے (Concerned Civic Agency) کے ریسکیو اینڈ فائر ڈیپارٹمنٹ کی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سول ایوی ایشن کا ریسکیو اینڈ فائر سروسز (RFFS) ڈیپارٹمنٹ محدود تعداد میں اپنے فائر کریش ٹینڈرز (Fire Crash Tenders) اور ریسکیو اہلکاروں کو ایئرپورٹ کی حدود سے باہر بھی فائر اینڈ ریسکیو آپریشن کے لیے بھیجتا ہے۔

بظاہر یہ بات عجیب لگتی ہے کہ سول ایوی ایشن کا ریسکیو اینڈ فائر ڈیپارٹمنٹ کسی بھی ہوائی حادثے کی صورت میں جو کہ ایئر پورٹ کی حدود سے باہر ہو، ریسکیو آپریشن کو لیڈ کیوں نہیں کرتا؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے ہوائی اڈے پر مطلوبہ معیار کے مطابق فائر سروس دستیاب نہ ہونے پر ایئرپورٹ کیٹگری ڈاؤن ہو جاتی ہے۔ اور تمام ایئرپورٹ آپریشن بند کرنا پڑتا ہے۔ اس سارے عمل کے پیچھے منطق یہ ہے کہ فضا میں موجود دیگر جہازوں کی آمدورفت بند نہ ہوسکے۔ تاکہ ان کو مزید کسی حادثے سے سے بچایا جا سکے۔

قیاس آرائیاں۔

اس حادثے کی وجوہات کے تعین کے لیے وفاقی حکومت کی کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور اس کی حتمی رپورٹ سامنے آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ کسی بھی حادثے کے بعد ہونے والی پیشہ ورانہ تحقیقات کا مقصد کسی فرد یا گروہ کو موردِ الزام ٹھہرانا نہیں ہوتا۔ بلکہ ان حقائق، مسائل، ناکامیوں اور ان کے پس پردہ اسباب کا جائزہ لینا ہوتا ہے جو اس حادثے کا باعث بنے ۔تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کا لائحہ عمل طے کر کے ان سے بچا جاسکے۔

البتہ تحقیقات کے بعد اگر کسی شخص یا اشخاص کی جانب سے مجرمانہ غفلت کی نشاندہی ہو تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے۔

بین الاقوامی معیار کے مطابق عمومی طور پر کسی بھی ہوائی حادثے کی تحقیقات میں تقریبا ایک سال کا عرصہ لگتا ہے۔

پاکستان میں بھی ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ نامی خود مختار ادارہ کسی بھی ہوائی حادثے کی صورت میں وفاقی حکومت کے احکامات کے تحت اس کے اسباب کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کرتا ہے۔ اس وقت بھی وفاقی حکومت نے اسی ادارے کے ملازمین پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ جامع تحقیقات کر رہی ہے۔ لیکن اس نازک موقع پر ذرائع ابلاغ اور عوام الناس میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز ہی طیارے کا کاک پٹ وائس ریکارڈر ملبے کے اندر سے ملا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر بھی ملبے سے برآمد ہؤا تھا۔ جبکہ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی ایئربس کی اپنی تحقیقاتی ٹیم بھی ائر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ کی تحقیقاتی ٹیم کی اعانت کر رہی ہے۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق طیارے کے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر کو فرانس میں لے جاکر ڈی کوڈ کیا جائے گا ۔ جس کے بعد ہی تحقیقات اپنے منطقی انجام تک پہنچے گیں۔

جامع تحقیقات سے پہلے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنا قبل از وقت ہے۔ پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولر گلڈ، اس وقت تمام مکاتب فکر سے یہ گزارش کرتی ہے کہ وہ صبر کا دامن تھامیں اور تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل اطمینان سے کرنے دیں۔ اس موقع پر کسی بھی قسم کی قیاس آرائیوں کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

یہاں یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کا مطمح نظر کسی طرح کی رائے یا ذہن سازی کی کوشش کرنا نہیں ہے۔ اور نہ ہی تحقیقاتی عمل پر اثرانداز ہونا ہے۔

پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرولر گلڈ تحقیقاتی کمیٹی پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اور امید کرتی ہیں کہ جلد از جلد جامع تحقیقاتی رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے گی۔

|Pak Destiny|

Leave a Reply