حکومت آئینی طریقے سے ختم کی جا چکی ہے، نئی حکومت کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا چکے ہیں۔ اس تحریر کی اشاعت تک پاکستان میں نئی حکومت بن چکی ہو گی۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کوئی حکومت عدم اعتماد کے زریعے ہٹائی گئی، جب کہ اس سے پہلے تمام تر حکومتیں مارشل لاء یا عدالت کے ذریعے ہٹائی گئیں۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ عدالت نے فیصلہ آئین کے مطابق دیا اور نظریہ ضرورت کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
خان صاحب اقتدار میں نہیں رہے اور یہی چیز ان اور ان کے حامیوں کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو رہی ہے۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے ہی میڈیا اور تمام ادارے ان کے ساتھ تھے ۔ حتی کہ ٹی وی چینلز اپنے اشتہارات روک کر دھرنے کی لائیو کوریج کرتے۔ اور جب خان صاحب اقتدار میں آئے تو میڈیا سمیت ہر ادارہ ان کے ساتھ تھا، اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ان کی پشت پر تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ کچھ خاص کارکردگی نا دکھا پائے۔ پہلے سو دن میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا گیا مگر پھر وہ تبدیلی ساڑھے تین برس تک نا آ سکی۔ مہنگائی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی گئی، پٹرول کی قیمتیں اس حد تک بڑھیں کہ عوام کے لئے جینا دوبھر ہو گیا۔ ڈالر کی قیمت بھی بڑھی اور خوب بڑھی۔ خان صاحب سبز پاسپورٹ کی عزت کروانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے مگر سبز پاسپورٹ کی رینکنگ مزید نیچے چلی گئی۔ اس سب کے دوران خان صاحب اور ان کو لانے والے بری طرح ایکسپوز ہوئے۔ عوام کو ان سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ ٹوٹ گئیں، لوگوں کو کوئی راہ نظر نا آئی کہ کرپٹ سیاستدانوں کے جس ٹولے کو چھوڑ کر انہوں نے عمران خان کو نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دیا تھا، وہ بھی ان جیسا نکلا۔ اس “نجات دہندہ” نے انہی کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملا لیا جن کے خلاف وہ جہاد کرتا آیا تھا۔ “کرپشن کی ماں” کو مشیر بنایا تو “پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو” کو اپنا اتحادی ۔ جس شخص جیسا سیاست دان کبھی بھی نا بننے کی ہمیشہ دعائیں کیا کرتے تھے، اسی کو ساتھ ملا کر وزارت سے نوازا۔ جس ٹیم کے دعوے کیا کرتے تھے وہ ٹیم شروع میں ہی بری طرح ایکسپوز ہو گئی۔ اس دوران عوام عمران خان سے بھی بدظن ہوئی اور ان کے لانے والوں سے بھی۔
اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب خان صاحب نواز حکومت کے خلاف اپوزیشن میں تھے تب حالات کافی حد تک بہتر تھے، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں قابو میں تھیں، ڈالر نیچے تھا اور پٹرول کی قیمت بھی کم تھی، چینی آٹے کا بحران بھی نا تھا، اس سب کو بھی نواز حکومت کی پالیسیوں سے زیادہ عمران خان کی سخت اپوزیشن کی وجہ گردانا گیا۔ مگر آخر پھر ایسا کیا ہوا کہ جب خان صاحب خود اقتدار میں آئے تو وہ ایسا کچھ بھی نا کر سکے جس کے وہ دعوے کیا کرتے تھے۔ وہ بائیس سال کا ہوم ورک بائیس دن میں ایکسپوز ہو کر رہ گیا۔عمران ایک اچھے کرکٹ کے کھلاڑی تھے لیکن سیاست میں یہ ایک اچھی ٹیم نا بنا سکے۔ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں ایک ایسے شخص کو لگا دیا گیا جو کسی قابل نا تھا۔ اپوزیشن سمیت اتحادیوں نے اس پر بہت اعتراضات اٹھائے مگر خان صاحب اپنی ضد پر اڑے رہے، جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خان صاحب کو حکومت سے زیادہ اپوزیشن میں رہنا آتا ہے، اگر عمران خان اپنی انا کو قربان کر کے اپوزیشن میں آ جاتے ہیں تو ان کی سیاسیت اور امریکہ مخالف بیانیہ دوبارہ عوام میں مقبول ہو جائے گا۔ ان کے پاس سوشل میڈیا ٹیم بہت مضبوط ہے، اسی ٹیم کی بدولت 2018 کے انتحابات میں بچے بچے کی زبان پر تحریک انصاف کے نعرے اور “گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے” جیسا نواز مخالف بیانیہ موجود تھا۔ اب اگر خان صاحب امریکہ اور اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیہ سامنے لے کے آتے ہیں تو وہ بھی ان کی ٹیم کی بدولت جلد ہی عوام میں مقبول ہو جائے گا۔
خان کے کچھ ساتھی اسمبلیوں سے استعفی دینے کے مشورے دے رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ عمران خان کبھی ایسا نہیں کرے گا۔ وہ کھلاڑی ہے اور ہمیشہ لڑنے کو ترجیح دیتا ہے۔ مزید یہ کہ اسمبلیوں سے استعفی دینا پی ڈی ایم کو موقع دینا ہے کہ وہ کھل کر کھیلیں۔ ایسی صورتحال میں عمران خان اور اس کے ساتھیوں پر کرپشن کے کیسز بھی بنائے جا سکتے ہیں اور فرح بی بی عرف گوگی و دیگر کی گرفتاریاں عمل میں لائی جا سکتی ہیں۔
اب ہو گا یہ کہ عدلیہ کو رگڑا لگایا جائے گا، آرمی کو رگڑا جائے گا۔ یاد رہے یہ وہی اسٹبلشمنٹ ہے جس کے کندھوں پر سوار ہو کر خان صاحب اقتدار میں آئے تھے اور فخر سے امپائر کی انگلی اٹھ جانے کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ اب یہ بھی کہا جائے گا خان کی جان کو خطرہ ہے۔ اب آٹا دال چاول کی وہ قیمتیں جو خان صاحب کے دورمیں کسی کو نظر نہیں آتی تھیں، وہ بہت زیادہ بتائی جائیں گی۔
خان پر کرپشن کے کیسز بنائے جائیں گے لیکن ان کا یہ بیانیہ ہو گا چونکہ یہ اب اپوزیشن میں ہیں اور ان کو رگڑا لگا رہے ہیں، اس لئے ان پہ کیسز بنائے جا رہے ہیں لیکن اگر سابق خاتون اول، اس کی دوست و دیگر کی کرپشن ثابت ہو جاتی ہے تو خان کا کرپشن مخالف بیانیہ خود دم توڑ جائے گا۔ اب خان باہر نکلے گا، وہ حکومت کو کام نہیں کرنے دے گا۔ اور اپنے سپورٹرز کو باہر نکال کے اپنا بیانیہ عوام میں دے گا۔ اور اس کی سپورٹ بڑھے گی
سیاست کی یہ شطرنج اور خان کی سب چالیں الٹا کھلاڑی کو پڑ گئیں۔ اب ہو گا یہ پی ڈی ایم راہنماوں پر کرپشن کے تمام کیسز ختم کیے جائیں گے، نئی قانون سازی ہو گی۔ میاں نواز شریف واپس آئیں گے اور پہلے کی طرح سیاست میں شامل ہو جائیں گے اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ اور پھر وہی کرپٹ ٹولا دوبارہ آئندہ کے لئے بھی باریاں بدل بدل کر حاکم بن کر آئے گا۔ عمران خان اگر ابھی بھی درست طور پر اپوزیشن کا کردار ادا کر جائیں تو عزت بچ سکتی ہے.
دعا ہے کہ جو بھی ہو، پاکستان کے حق میں بہتر ہو ۔ عمران خان جن کے خلاف کھڑے تھے، جن کے خلاف تبدیلی لانا چاہتے تھے، وہی تبدیل خود خان صاحب کے خلاف آ گئی