۔ صدیوں سے اقتدار ، دولت اور خوبصورتی کے پیچھے بھاگتا ‘حضرتِ انسان’ ۔

– ڈاکٹر عامر لاھوری –
جب سے دنیا بنی ہے تب سے دو چیزیں ہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔
پہلی:پیسہ و پوزیشن
دوسری:خوبصورتی
میں پیسہ و پوزیشن کو دو نہیں ایک چیز ہی مانتا ہوں۔عورت کی خوبصورتی کا تصور ہمیشہ سے یہی ہے کہ خوبصورت نین نقش،متناسب جسم اور گورا رنگ۔میٹھی آواز میری طرف سے شامل کر لیجیئے۔بہتر حوریں ہیں جنت میں۔ان بہتر میں کالی حوریں کتنی ہیں؟ایک بھی نہیں۔بہتر کی بہتر چٹی گوری ہیں۔
کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔اومان میں غلامی کا خاتمہ انیس سو ستر میں ہوا۔صدیوں سے افریقہ سے بھی مرد و عورت اغواء کر کے لائے جاتے تھے اور ان کی نسلیں بطور غلام گزرتی تھیں۔کیونکہ یہ لوگ ذھنی طور پہ بہت پیچھے تھے۔فاسٹ فارورڈ کرتے ہوئے آج امریکہ و یورپ میں آپ کو جو کالے نظر آتے ہیں وہ اِنہیں لوگوں کی اولاد ہیں۔انسان نے evolve کیا۔جانا و سمجھا کہ غلامی غلط بات ہے اور آج اِنہیں پراپر برابر کا انسان سمجھا و مانا جاتا ہے اور بلاشبہ یہ اچھی بات ہے۔مگر عورت کی خوبصورتی کی ڈیفینیشن اب بھی اکثریتی لوگوں کے مطابق اچھے نین نقش،متناسب جسم و گوری رنگت ہی ہے۔وہی تین چیزوں کا مجموعہ و معیار جو صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔اسی لئے تو فیئر اینڈ لولی وغیرہ والے اربوں کماتے ہیں۔یہ ڈیفینیشن ہر اُس مرد و عورت کو چُبھتی ہے جو خود گورا،متناسب جسم و خوبصورت نین نقش کا نہیں ہے۔اب انسان کے مزید evolve ہونے کی نشانی یہ ہے کہ “گورا” اب اچھے نین نقش و متناسب جسم پہ تو زور دے رہا ہے لیکن سکن کلر ٹون کو اس ڈیفینیشن سے نکال رہا ہے۔اسی لئے اب بلیک سُپر ماڈلز و ایکٹرس بھی اربوں کماتی ہیں لیکن وہ خوبصورتی کے پہلے دو معیار اچھے نین نقش و متناسب جسم کو پورا کرتی ہیں۔دوسری طرف دنیا میں جہاں مرد و عورت کا اختلاط کم ہے وہاں متناسب جسم کی آگہی کم ہے۔مثال کے طور پہ پٹھان ایریاز اور پنجاب کے دیہی ایریاز میں زیادہ تر تھوڑا سا موٹاپا خوبصورتی مانا جاتا ہے لیکن اکثر گوروں کے ہاں اسے فیٹ کاؤ کہا جاتا ہے۔یہ صارتحال عرب ورلڈ میں بھی ہے۔بہرحال میڈیا کی وجہ سے اب صورتحال تیزی سے چینج ہو رہی ہے۔لوگوں میں متناسب جسم کی awareness ہو رہی ہے۔
اپنی سہولت کے لئے نومی کیمبل و زوئی سیلڈینا کا نام لے لیتا ہوں۔زوئی اس وقت چالیس سال کی ہے۔تین بچوں کی ماں ہے۔اخیر فٹ اور شیپ میں ہے۔زوئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی اُن چند خواتین میں سے آتی ہے جو بہت اٹریکٹو ھپس رکھتی ہیں۔بقول زوئی وہ انہیں شیپ میں رکھنے کے لئے شدید محنت کرتی ہے اور اِن پہ پراؤڈ فیل کرتی ہے۔وہی بات ڈیفینیشن میں سے سکن کلر ٹون مائنس ہو رہی ہے لیکن اچھے نین نقش و متناسب جسم ابھی بھی برقرار ہے۔زیادہ ڈیپ جائیں تو ایک زمانے میں خوبصورتی کی ڈیفینیشن میں متناسب جسم کی کچھ زیادہ اہمیت تھی بھی نہیں۔نیتو سنگھ و ہیمامالنی آجکل کی خوبصورتی کے سخت معیار کے مطابق موٹی تو نہیں لیکن چبی یا کروی ضرور شمار ہوں گی۔آجکل کے خوبصورتی کے معیار پہ دیپیکا پاڈوکون پوری اُترتی ہے حالانکہ وہ گوری نہیں ہے۔میں یہاں individual پسند کی نہیں دنیا میں اکثریتی لوگوں کے ہاں مروجہ ڈیفینیشن کی بات کر رہا ہوں۔
بات کیا ہے؟بات یہ ہے جی کہ اب اگر کوئی شخص اچھے نین نقش،متناسب جسم کے ساتھ”گوری رنگت” کی بات کرتا ہے تو اُسے کلرو فوبک و ریسسٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ارے بھئی یہ پرسنل فیورٹ والی بات ہے اس میں ریس ازم کہاں سے آ گیا؟مثال کے طور پہ
زوئی،ایونکا ٹرمپ ،گال گے ڈوٹ و دیپیکا پاڈوکون چاروں کے نین نقش اچھے ہیں۔متناسب جسم ہے لیکن مجھے سب سے زیادہ ایونکا ٹرمپ پسند ہے کیونکہ اُس کی کلر ٹون ان چاروں سے زیادہ مجھے پسند ہے۔تو کیا میں ریسسٹ ہوں؟نہیں۔بس مجھے ایونکا کا سکن کلر ان چاروں سے اچھا لگتا ہے۔۔بہت ساری باتوں کے”ساتھ ساتھ” مجھے گورا رنگ اچھا لگتا ہے۔وہی یہ پرسنل فیورٹ والی بات ہے۔
لیکن
یہ بات کہو تو آپ کو گورے کے ذھنی غلام ہونے کا طعنہ ملتا ہے۔او نہیں بھئی یہ غلامی نہیں ذاتی پسند والی بات ہے۔آپ کی مرضی آپ دیپیکا کو پہلے نمبر پہ رکھ لیں۔میں تو آپ وائٹ کلر فوبک کی طرز پہ سانولی کلرو فوبک نہیں کہوں گا۔آپ زوئی سیلڈینا کو پہلے نمبر پہ کر لو تو کیا آپ بلیک کلرو فوبک ہو؟پاکستان میں ٹورازم تو اب تقریبا ناں ہونے کے برابر ہے۔ہم لوگ ناں پیور چٹیاں دیکھتے ہیں اور ناں پیور کالیاں۔کئی کالیاں بھی اتنی اٹریکٹو ہوتی ہیں کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔انہیں لمبے قد کا پیدائشی ایڈوانج ہوتا ہے۔قد لمبا ہو۔جسم متناسب ہو۔آنکھیں گہری ہوں۔ہونٹ تو ان کے قدرتی بڑے و بھرے بھرے ہوتے ہیں مطلب سموکنگ ہاٹ لپس۔ہمارے گروپ نے کافی سال پہلے ٹور کے پہلے دن دوبئی کے ہوٹل کی ریسپیشن پہ پہلی دفعہ ایک پراپر کینین نیشنل کالی دیکھی تھی اور ہم چھ کے چھ دیکھتے ہی رہ گئے تھے۔کوئی اخیر ہی اٹریکٹو تھی۔میرے خیال میں اُس کے اندر کوئی مقناطیسی کشش تھی کہ بندہ اُس کی طرف کچھا چلا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔
بہت ساری چٹیاں جن کے نین نقش کچھ خاص نہیں اور جسم بھدا ہے۔اُن کا بھی ظالم دنیا مذاق اُڑاتی ہے۔اب لفظ چٹیاں کی جگہ لفظ کالیاں لکھ لیں۔بات سیم رہے گی۔ھاں بلاشبہ لوگوں کا اُن کے رنگ،جسم،نین نقش وغیرہ کو لے کر مذاق نہیں اُڑانا چاھیئے۔میں بھی یہی کوشش کرتا ہوں کہ مذاق ناں اُڑاؤں۔انسان evolve ہو رہا ہے۔حوصلہ رکھیئے۔ڈنڈے سوٹے سے زیادہ تر لوگ باغی ہو جاتے ہیں۔یہ دوسروں کو نسل پرست،کلرو وبک،ذھنی غلام کہنے سے لوگ باز نہیں آئیں گے۔میرے خیال میں انسان سکن کلر ٹون سے تو باہر نکل آئے گا لیکن متناسب جسم و اچھے نین نقش سے باہر شاید ہی کبھی نکلے۔بُوب جاب،فلر انجکشنز،پلاسٹک سرجری،معدہ کٹوانے کے آپریشنز وغیرہ کا روز بروز بڑھتا ہوا بزنس اس بات کا ثبوت ہیں۔ PakDestiny.com

Leave a Reply