کیا ھمارے ماں باپ اور اساتذہ غلط تھے؟؟؟

were-our-teachers-and-parents-wrong

(Pakdestiny.com)- از۔ڈاکٹر عامر میر۔

اور کیا ھم بھی غلط ھیں جو اپنے لڑکوں کو لفنگے بننے کی بجائے مہذب بننے کی تربیت دے رھے ھیں؟؟؟
کیا کوئی لفنگا شادی اور اسکے بعد پڑھنے والی ذمہ داریاں زیادہ اچھے طریقے سے اٹھا سکتا ھے؟؟؟یا اس کی نسبت ایک مہذب آدمی زیادہ قابل ثابت ھو گا؟؟؟
یہ آرٹیکل یا تحقیق پہلے بھی کئی دفعہ میری نظروں سے گزری ھے اور میں نے سوچا کہ آپ سے اس بارے میں رائے جانی جائے؟؟؟؟
تحقیق کا نتیجہ یہ ھے کہ۔۔۔۔
“”””””لڑکیوں کو لفنگے مرد پسند ہیں “””””
کسی یورپین یونیورسٹی میں تحقیق۔۔۔۔۔۔
“رومانس” موضوع تھا
کلاس میں 70 طالب علم تھے اور انہوں نے ساتھ مل کر ریسرچ پیپر لکھنا تھا ہر طالب علم نے دنیا بھر سے عشق کی 10 داستانوں کا جائزہ لینا تھا، چاہے وہ فلم کی ہوں، یا ٹی وی کے پروگرام یا ناول کی کہانیاں پھر ان میں موجود ہیروز کا کریکٹر انیلسز (Character Analysis )کرنا تھا
ان 70 طالب علموں میں سے 21 ایسے تھے جو انگریزی اور فرانسیسی کے علاوہ بھی زبانیں جانتے تھے ان میں ایک پاکستانی طالبعلم کو دس کہانیاں اور فلمیں ڈرامے وغیرہ دیۓ گئے
لیلیٰ مجنوں
ہیر رانجھا
دل والے دلہنیا لے جائیں گے
ٹائی ٹیننک
ہیلن آف ٹرائے
رومیو جیولیٹ
ان کے علاوہ کچھ انڈین دیو ما لائی داستانیں بھی تھیں جو صدیوں پرانی تھیں اور زبانی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوئی تھیں یعنی فارسی، عربی، ہندی، جدید برطانوی، کلاسیکل یونانی اور امریکی ہالی وڈ کی سنائی ہوئی عشق کی داستانوں کو پڑھ کر اس میں موجود مرد کردار کو سمجھنا تھا کہ وہ کس قسم کا آدمی ہوتا ہے اور ان کہانیوں کو سننے والے اس سے کیوٕں پیار کرتے ہیں۔
جب 70 طالب علموں نے دس، دس کہانیوں کا ایک پورے سیمیسٹر میں جائزہ لیا تو ساری دنیا سے 700 داستانیں جمع ہو گئیں جو مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں سنائی گئی تھیں۔ یہ اس وقت تک Romance کے Genre پر کی جانے والی سب سے بڑی تحقیق تھی جو اس یونیورسٹی میں ہوئی تھی اس تحقیق میں جن کہانیوں کا جائزہ لیا گیا ان میں صرف وہ کہانیاں شامل کی گئی تھیں جو بڑی عمر کے لوگوں کے لیے یعنی Adult Fiction کہلاتی تھیں ان میں بچوں کے متعلقہ سنڈریلا یا سنو وائٹ وغیرہ کو شامل نہیں کیا گیا تھا
تحقیق میں ایک بات سامنے آئی اگر ان کہانیوں میں سے وہ کہانیاں نکالی جائیں جو عوام اور خاص طور پر خواتین میں بہت مقبول رہی تھیں تو ان تمام کہانیوں کے مرد کردار اپنے اپنے ادوار کے لفنگے تھے لیلیٰ مجنوں میں قیس کا کردار ایک لفنگا تھا جسے باقی دنیا نے جنونی کے نام سے جانا
‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ میں راج ملہوترا کا کردار جسے شاہ رخ خآن نے ادا کیا تھا, وہ بھی ایک اول درجے کا لفنگا تھا اسی طرح سے ولیم شیکسپئر نے جب رومیو کا کردار لکھا تو یہ اس دور کے لحاظ سے ایک ایسا ناقابل برداشت لفنگا تھا جسے اولاد کے طور پر کوئی یورپی گھرانہ قبول نہ کرنا چاہے گا’ٹائٹینک’ میں جیک ڈاؤسن کا کردار جسے لیونارڈو ڈی کیپریو نے ادا کیا وہ وکٹورین دور کا لفنگا تھا اور ‘ہیلن آف ٹرائے میں شہزادہ پیرس ایک ایسا لفنگا تھا جس کے لفنگے پن سے ایک پوری قوم نقشے سے غائب ہو گئی
جب ان 10 کہانیوں پر رپورٹ سامنے آئی جو بڑی حیران کن تھی کہ اتنے مختلف علاقوں میں اتنے مختلف ادوار میں لکھی ہوئی کہانیوں میں اگر کوئی چیز مشترک تھی تو وہ “لفنگے شخص “کا کردار تھا شروع میں سمجھا گیا کہ جو 10 داستانیں تھیں وہ اتفاق سے لفنگوں ہی کی تھیں ہو سکتا ہے کہ باقی کلاس میں لوگوں کے پاس ایسی کہانیاں آئی ہوں جن میں لڑکیوں کو شریف اور مہذب لوگوں سے عشق ہو گیا ہو مگر 700 سے زائد بین الاقوامی کہانیوں کی اجتماعی رپورٹ جو سینکڑوں صفحوں پر مشتمل تھی وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ” دنیا بھر کی لڑکیوں کو لفنگے ہی اچھے لگتے ہیں”
دنیا میں اگر مصنف نے کہانی میں لڑکی کی کسی شریف زادے سے عشق کرانے کی کوشش بھی کی تھی تو وہ کہانی اپنے دور کی ناکام کہانی رہی
کہانی کے کرداروں کو ان کی شخصیت ہمیشہ علاقائی تہذیب عطا کرتی ہے اسی وجہ سے ان کرداروں کو اس تہذیب سے باہر مقبول بنانا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وہ پیداوار ہوتے ہیں اس کی اولین مثال پنجابی کی فلم ہے پنجابی فلموں میں ہیرو کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک غصے والا انسان ہو کیونکہ اس علاقے میں غصے کو مردانگی اور غیرت کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے اس وجہ سے جب مصنف غیرت مند آدمی دکھانا چاہتے ہیں تو وہ غصے والا آدمی دکھاتے ہیں
مگر دنیا میں بہت سی ثقافتیں ایسی بھی ہیں جہاں غصے کو کمزوری اور بے بسی سے منسلک کیا گیا ہےان ممالک میں کہانی کے ہیرو کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بڑی سے بڑی مصیبت بغیر غصے کے سہے ورنہ اسے بے بس سمجھ لیا جائے گا اس کی اولین مثال ہانگ کانگ کا وہ سنیما تھا جو بین الاقوامی مارکیٹ کے بجائے مقامی لوگوں کے لیے ہوا کرتا تھا کیونکہ کنفیوشنزم کے فلسفے اور بدھ مت کی تعلیمات میں غصہ ایک پلید جذبہ تھا اس وجہ سے ‘کنگ فو’ کی تمام فلموں میں جیکی چن کا کردار ان تمام آزمائشوں سے گزرتا تھا جن میں ایک عام آدمی کو شدید غصہ آجاتا ہے مگر جیکی چن کی تمام جدو جہد غصے کے بجائے اصولوں پر ہوتی تھی مگر لفنگوں کے ساتھ ایسا نہیں تھا لفنگے نہ تو پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح کسی علاقای حدود کا لحاظ کرتے تھے اور نہ ہی بدلتے ہوئے زمانے نے ان کی مانگ میں کمی یا اضافہ کیا تھا یہ جب بھی کسی کہانی میں نمودار ہوتے تو دنیا کی اکثرلڑکیاں ان پر عاشق ہو جاتی تھیں اور اس طرح لفنگے ہر دور کی خواتین کے دلوں میں اپنی جگہ پیدا کر لیتے تھے جب کسی بھی جنریشن کی کوئی خصوصیت اپنی علاقائی سرحد کی حدود پار کرکے باہر نکل آتی تھی تو اسے کلچرل سٹڈیز کے بجائے نفسیات کے مضمون کے تحت دیکھا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس یونیورسٹی کی تحقیق سے جو نتائج سامنے آئےاس پہ غور و فکر کرنے کے لئیے نفسیات پہ تحقیق دان پروفیسر کو مقرر کیا گیا جو عالمی فلموں کہانیوں وغیرہ کے ان رجحانات پر رپورٹس لکھتے تھے جو کلچرل سٹڈیز کی حدود پھلانگ کر عالمی نفسیات پہ اثر انداز ہوتی تھیں انکی اس تحقیق پہ لکھی گئی رپورٹ کا ایک پیرا گراف مشرقی تہذیب و تمدن وثقافت کے لئیے لمحہ فکریہ تھا
“عورت کو اللہ تعالٰی نے آنے والے دور کا امام پیدا کرنے کے لیے بنایا ہے اگر اس پر معاشرے کا جبر مسلط نہ کیا جائے تو وہ ایک ایسا ہم سفر تلاش کرے گی جو اس دور کے اقدار سے باہر جی رہا ہوگا اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد نئی اقدار اور نئی سوچ کو دنیا میں متعارف کرانے کا ذریعہ بن سکتی ہے”
اس تحقیق کے مطابق تو ھمیں اپنے لڑکوں کو مہذب بننے کی بجائے لفنگا بننے کی تعلیم دینی چاھیئے؟؟؟
میری ذاتی رائے میں تو ھمارے معاشرے میں لڑکیوں کو لفنگے کی بجائے اس لڑکے میں کشش محسوس ھوتی ھے جس کے پاس چار پیسے ھوں یا جو کسی پیسے والی فیملی ھو یا جس میں انکو مالی تحفظ محسوس ھوتا ھو!!!!
غریب کے ساتھ بھی کبھی کسی کو پیار ھوتا ھے؟؟؟
یاد رھے میری یہ رائے صرف ھمارے معاشرے کے بارے میں ھے۔۔۔میں ویسٹ کے لوگوں کی بات نہیں کر رھا۔۔۔

One Response

Leave a Reply