فرنگی تعیلم اور مدرسے

 از۔ڈاکٹر عامر میر ۔ ww.pakdestiny.com

انگریز کی برصغیر میں آمد سے قبل جس نے ڈاکٹر(حکیم) بننا ھوتا تھا وہ کسی بڑے حکیم کے پاس شاگردی اختیار کر لیتا تھا اور پھر چند سالوں کی شاگردی کے بعد حکیم بن جاتا تھا۔
کسی منشی ٹائپ بندے کی شاگردگی اختیار کی جاتی تھی اور چند سالوں بعد ایک نیا چارٹرڈ اکاؤٹنٹ تیار ھو جاتا تھا۔
کسی راج کےپاس شاگردگی +مزدوری کی جاتی تھی تو چند سالوں بعد انجینیئر تیار ھو جاتا تھا۔
اس زمانے میں تعلیمی ادارے صرف مدرسے ھی تھے جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی۔بس۔
انگریز کے برصغیر میں حکومت کے آغاز پہ سائنس کا انقلاب ساری دنیا میں شروع ھو رھا تھا اب جس نے ڈاکٹر بننا تھا وہ میڈیکل کالج جائے۔انجینیئر بننے کیلیئے کالجز کا قیام شروع ھوا۔اعلی سرکاری ملازمت کیلیئے پہلے امتحان پاس کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔
ھندوؤں نے وقت کی اس تبدیلی کو فورآ محسوس کیا اور ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں اعلی پوزیشنوں پہ براجمان ھونا شروع ھو گئے۔
اور مسلمان؟؟؟
مسلمانوں کی سوچ یہ تھی کہ فرنگیوں نے چونکہ انسے حکومت چھینی ھے اسلیے وہ فرنگیوں کا بائیکاٹ کرتے ھوئے ان کے سکول کالجز میں نہیں پڑھیں گے اور تعلیم تو”صرف”قرآن و حدیث کا علم ھی ھے اور ان سکول و کالجز میں پڑھ کے وہ بھی فرنگی ھو جائیں گے؟؟؟؟اسلیے فرنگیوں کے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ!!!
آج ھم سب جانتے ھیں کہ مسلمانوں کی یہ سوچ غلط تھی پر اُس وقت اس غلطی کا بڑے لیول پہ احساس صرف ایک شخص کو ھوا اور وہ شخص تھا سرسید احمد خان۔۔۔جس نے علی گڑھ میں مسلمانوں کے لیئے معیاری تعلیمی ادارہ قائم کیا۔سر سید کو اس وقت مسلمانوں سے کیا کیا سننا پڑا؟؟یہ ھم میں سے بہت کم لوگ جانتے ھیں۔
آج کے زمانے کی طرح جیسے اب افورڈ کرنے والے اپنے بچوں کو پڑھنے کیلیئے باھر بھیجتے ھیں اسی طرح علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ماں باپ نے اپنے بچوں کو پڑھنے کیلیئے باھر بھیجا اور رزلٹ یہ ان لوگوں نے پاکستان بنایا اور اس ملک کے بننے کے بعد اس ملک بیوروکریسی پہ جو لوگ براجمان ھوئے ان میں سے زیادہ تر علی گڑھ کے ھی پڑھے ھوئے تھے۔اندازہ لگائیے،سرسید کا ھم پہ کتنا بڑا احسان ھے؟؟؟
اور زیادہ ملا حضرات کی پاکستان بننے کی مخالفت کو اس نظر سے بھی سمجھنے کی کوشش کیجیئے!!!
ایک دوست کی وال پہ یہ بات کی گئی کہ مدرسوں سے اچھے لوگ اسلیے نہیں نکل رھے کیونکہ ھم گھر میں جو لائق بچہ اسکو سکول اور نالائق کو مدرسے میں ڈال دیتے ھیں۔یہ بڑا سطحی سا استدلال ھے۔ھم چونکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ھیں اسلیے ھمارے ماں باپ نے ھمیں سکول میں اسلیے ڈالا کہ کل کلاں کو پڑھ لکھ کے ھم ڈاکٹر،انجنیئر،چارڑڈ اکاؤٹنٹ،وکیل وغیرہ بن کر رزق حلال کما سکیں۔مدرسے میں ڈال دیتے تو ھم زیادہ سے زیادہ اسلامیات کا ماسٹر بن سکتے تھے یا مسجد کا مولوی؟؟
آب آتے ھیں اصل معاملے کی طرف۔۔۔آئے دن روز بروز مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ھوتا چلا جا رھا ھے آخر ھمیں ان typical مدرسوں کی کتنی ضرورت ھے؟؟لوگ اپنی طرف سے بڑی”جگت”کرواتے ھیں کہ مولوی نہیں ھو گا تو تمہارا نکاح اور جنازہ کون پڑھوائے گا؟؟؟
جناب یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ھے جب ھم لوگ بڑی بڑی کتابیں یاد کر سکتے ھیں تو
ایک نکاح کا خطبہ
ایک نماز جنازہ
ایک جمعہ کا خطبہ
رٹ لینا کونسی بڑی بات ھے؟؟؟
نماز ھم سب کو ھی آتی ھے۔آخر مولوی کی کیا حاجت ھے؟؟؟کوئی بھی آگے کھڑا ھو کے امامت کروائے پیچھے سب نماز پڑھ لیں گے۔اب بتائیں مولوی کی کوئی ضرورت رہ گئی؟؟؟
دوسری بات۔۔۔۔۔۔
دیکھیئے مذھب کے دو ھی حصے ھیں”ایک عمومی”عام زندگی کا حصہ،فرائض اسلام(نماز،روزہ وغیرہ) یہ ھم کیا کسی مولوی سے سیکھتے ھیں اسکی ٹریننگ ھمارے گھروں،سکولوں سے ھو جاتی ھے اور بالغ ھونے تک یہ چیزیں ھم سیکھ جاتے ھیں۔
دوسرا ھے”خاص حصہ”
یعنی کہ قرآن وحدیث کا خاص علم۔۔۔ھاں اس کےلیے ضرور میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج کی طرح مخصوص بچوں کو ایف اے یا ایف ایس سی کرنے کے بعد انڑی ٹیسٹ لے کہ میرٹ پہ داخلہ ملنا چاھیئے لیکن ان۔مدرسوں کی تعداد۔اور ان سے نکلنے والے۔گریجویٹ کی تعداد۔کا فیصلہ معاشرے میں ان کی کھپت کے حساب سے ھی ھونا چاھیئے۔
اب زمینی صورت حال یہ ھے کہ دھڑا دھڑ لوگ مدرسے بنا رھے ھیں جو لوگ بچے کو روٹی اور دو جوڑے کپڑوں کے نہیں دے سکتے وہ پانچ سال کی عمر میں انکو مدرسے چھوڑ آتے ھیں۔وھاں سے ایک مخصوص فرقے کا عالم اور خودکش بمبار،فدائی لشکر وغیرہ وغیرہ نکل رھے ھیں۔
اس بات کو بہت باریک بینی سے مانیٹر کرنے کی ضرورت ھے آخر اس مدرسے سے نکلنے والا اپنا رزق حلال کیسے کمائے گا؟؟اور کچھ نہیں تو وہ مذھب کو ھی تجارت،بزنس بنائے گا؟؟
اور مذھب کا بزنس بہت منافع بخش لیکن خطرناک ھوتا ھے!!!
مولوی کو آخر کتنی تنخواہ ملتی ھے؟؟پھر بار بار وہی سوال مدرسے کے فارغ و تحصیل کو کہاں جاب ملے گی؟؟
ایک اور بات جو کی گئی کہ جی مدرسوں میں قرآن حفظ کرایا جاتا ھے تو اسکا بہت مختصر جواب یہ ھے کہ قرآن کو کتابی شکل میں لانے کی اشد ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب ستر حفاظ قرآن جنگ یمامہ میں شہید ھو گئے!!!
بہر حال یہ ایک طویل موضوع ھے اس پہ دوسری قسط بعد میں۔
اس پہلی قسط پہ آپ کی کیا رائے ھے؟؟؟

One Response

  1. عنایت بلوچ Reply

Leave a Reply