
By Raza Ruman
Will Justice be served in the killing of four people who were crushed by four-wheel drive, allegedly driven by the son of federal ombudswoman Kashmala Tariq in Islamabad.
This case has suddenly been gone off the pages of the media and why?
Despite a statement by the survivor that Kashmala’s son was driving the car his bail has not yet been cancelled nor he is arrested. And on top of that media is silent on this high profile case.
CCTV Footage of Kashmala Tariq sons G-11 accident happened in Islamabad
Similarly Best Western owner, the husband of Kashmala, was involved in the accident. Will he get away with this too?
According to a first information report lodged at the Ramna police station on Tuesday, five men, who came from Mansehra to Islamabad for written exam for the Anti-Narcotics Force, were travelling in a Mehran which was hit by a Lexus of Kashmala family at the G-11 traffic signal.
A motorcycle rider was also hit and is injured The driver of the Lexus was son of Federal Ombudswoman for Protection of Women against Harassment Kashmala Tariq, FIR said.
Four of the passengers in the car expired while one, who is the complainant in the FIR, was injured.
The complainant said when he was rescued, people who had gathered at the site were naming Tariq’s son as the driver of the car that hit them.
Prime Minister Imran had taken notice of the incident but as yet happened in terms of action against those who involved in the killings of four yonng men.
Let’s see if those powerful always trample upon the law of the land and escape justice. PAK DESTINY
Ess aurat kay pass aisi key hae jis sey ess mulk ka har darwaza khul jata hae. 60 Sal ki Umar mein patta nae kini shadi hae khair sey moujuda husband be ayash hain esay kush be nae ho ga
Imran Khan AAP insaf k naam pa aay han ab aap un 4 katal hone wale ghariboon ki maoon ko insaf dilwain warna aap ko Roz kiamat 4 ghariboon k katal ka hisab Dena ho ga
Why media is silent
’’تاریخ فرشتہ ‘‘ محمد قاسم فرشتہ نے لکھی اور کمال کر دیا، یہ کتاب ملک کے ہر سیاستدان، فوجی افسر، بیوروکریٹ اور جج کے سرہانے ہونی چاہیے اور اسے روزانہ اس کا ایک باب پڑھ کر سونا چاہیے تا کہ یہ اگلے دن اٹھے تویہ وہ غلطیاں نہ کرے جو اس خطے میں پچھلے دو، دو ہزار سال سے ہو رہی ہیں اور ہر غلطی کا نتیجہ وہ نکلا جو اس وقت پاکستان میں صاف نظر آ رہا ہے۔
’’تاریخ فرشتہ‘‘ کی بارہ ابواب پر مشتمل چارحصے ہیں جو کہ دو جلدوں میں مکمل ہیں اوراس کا ہر باب انسان کے بارہ طبق روشن کر دیتا ہے، اسے پڑھتے ہوئے تاریخ کے تمام کردار آپ کو اپنے آگے پیچھے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں.
مثلاً آپ قطب الدین مبارک شاہ خلجی کو لے لیجیے، یہ علائوالدین خلجی کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بنا، اس کی سلطنت دوتہائی ہندوستان پر پھیلی ہوئی تھی، یہ مذہباً مسلمان تھا لیکن اس کی حرکات انسانیت کی تمام حدیں کراس کر گئیں، یہ مک مکا کا ماہر تھا، اس نے ملک کے تمام اہم لوگوں کو خطاب، اعزازات، جاگیر یں اور وزارتیں دے کر اپنے ساتھ ملا لیا، ملک کے تمام حق گو، ایماندار اور بااثر لوگوں کو ایک ایک کر کے قتل کرا دیا، ملک کا جو بھی شخص اس کو چیلنج کرتا تھا یہ اسے دولت کے ذریعے خرید لیتا تھا یا پھر قتل کرا دیتا تھا.
یہ معاملہ اس حد تک رہتا تودرست تھا کیونکہ دنیا کے زیادہ تر بادشاہ یہی کرتے ہیں لیکن وہ فطرتاً ایک مکروہ کردار تھا، وہ ہم جنس پرست تھا، وہ گجرات کاٹھیاواڑ کے ایک نوجوان ہندو لڑکے پر عاشق ہو گیا اور اس نے اس لڑکے کو اپنی ذمے داری میں لے لیا، اسے خسرو خان کا خطاب دیا، وزیر بنایا اور اس کے ساتھ رہنے لگا، بادشاہ سلامت ہرروز خسرو خان کے ساتھ شادی کرتے تھے‘.
یہ ایک دن خسرو خان کا دولہا بنتے‘ باقاعدہ بارات تیار ہوتی‘ ملک کے تمام عمائدین لباس فاخرہ پہن کر اس بارات میں شامل ہوتے‘ شامیانے لگتے‘ باراتیوں کوکھانا کھلایا جاتا ‘ قاضی صاحب آتے اور بادشاہ سلامت کا خسرو خان کے ساتھ نکاح پڑھایا جاتا اور اس کے بعد ڈولی رخصت ہوجاتی‘ اگلے روز خسرو خان دولہا بنتااور بادشاہ سلامت قطب الدین مبارک شاہ خلجی اس کی دولہن بنتے اور اس تقریب میں بھی عمائدین سلطنت باقاعدہ شرکت کرتے تھے‘ اس ’’نکاح‘‘ کا ولیمہ بھی ہوتا تھا‘ بادشاہ سلامت نے ملک میں حسن فروشی اور شراب نوشی کی کھلی اجازت دے دی‘ .
انھوں نے اپنے محلات کے دروازے سستی عورتوں پر کھول دیے‘ وہ دربار میں سرعام برہنہ بھی ہو جاتے تھے اور درباریوں کو بھی اطاعت کا حکم جاری کر دیتے تھے- بادشاہ سلامت دربار میں زنانہ کپڑے اور زیورات پہن کر بھی تشریف لے آتےتھے اور درباری ان کے جمال کی کھل کر تعریف کرتے تھے۔
قطب الدین مبارک شاہ نے ہندوستان پر چار سال، چار ماہ حکومت کی، اس دوران خسرو خان اس کی کمزوری بن گیا‘ خسرو خان نے اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا‘ اس نے بادشاہ کے کان بھر بھر کر اس کے تمام وفادار ساتھی قتل کروا دیے‘
عزیزرشتے داروں کو جیلوں میں پھینکوا دیا‘ محل اور دربار میں اپنی برادری کے لوگ لگوا دیے اور پھر ایک دن بادشاہ کو عین اس وقت قتل کر دیا جب وہ زنانہ کپڑے پہن کر خسرو خان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا‘ بادشاہ کا سر محل سے باہر پھینک دیا گیا اور خواجہ سرا خسرو خان ہندوستان کا بادشاہ بن گیا-
خسرو خان نے اقتدار سنبھالتے ہی محل میں موجود قرآن مجید جمع کروائے اور (نعوذباللہ) انھیں دربار کی کرسیاں بنا دیا‘ مسلمان عمائدین کو ان پر بیٹھنے کا حکم دیا اور یہ لوگ ان کرسیوں پر بیٹھتے بھی رہے‘ نیا بادشاہ دربار میں درباریوں پر پیشاب بھی کر دیتا تھا‘ یہ حرکات اس قدر بڑھ گئیں کہ لوگوں نے خدا اور رسول ؐ کا واسطہ دے کر دیپالپور کے امیر غازی ملک کو دلی آنے کی دعوت دی‘ غازی ملک نے دلی فتح کی‘ خسروخان کو قتل کیا اور سلطان غیاث الدین تغلق کے نام سے حکومت شروع کر دی۔
قطب الدین مبارک شاہ اور خسرو خان، محمد قاسم فرشتہ کی 1300 صفحات کی کتاب کے دو کردار تھے جب کہ اس کتاب میں سیکڑوں اچھے برے کردار موجود ہیں- محمد قاسم فرشتہ کا دعویٰ ہے ہندوستان میں جب بھی کوئی اچھا حکمران آیا‘ اس خطے نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی لیکن جونہی قطب الدین مبارک شاہ جیسا کوئی کردار تخت نشین ہوا‘ یہ ملک تباہی اور بربادی کا منظر پیش کرنے لگا‘.
نقل ماخوز شد