۔”مجھے ہے حکم اذاں”۔ جیتے جاگتے کرداروں کا مجموعہ

mujhay-hai-hukam-azan-novel-review-m-sharif-rana

– ازقلم: ایم شریف رانا –

اقبال کی مشہور زمانہ نظم خودی کا سرنہاں، لا الہ الااللہ کے ایک مصرعے کو ٹائٹل بنا کر لکھا جانے والا ناول “مجھے ہے حکم اذاں” ہم نے پچھلے دنوں پڑھا۔ ام مریم کی جانب سے لکھا جانے والا یہ ضخیم ناول سات سو صفحات پر مشتمل ہے کہ جس کو پڑھنے کے لئے خوب وقت درکار ہے۔

ہم نے ناول پڑھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اچھا لکھا گیا ہے۔ بہترین پلاٹ، بولتے، جیتے جاگتے کردار کہ قاری خود کو ان کا حصہ محسوس کرتا ہے اور بلاشبہ یہ ہی کسی لکھاری کی کامیابی ہے کہ اس کے تخلیق کئے گیے کردار جیتے جاگتے ہوں، قاری خود کو ان کا حصہ محسوس کرے اور آخر تک پڑھے بغیر نہ چھوڑے۔

اس قدر ضخامت کے باوجود ناول پڑھتے ہوئے بور نہیں لگتا بلکہ آخر تک پڑھے گئے چین نہیں ملتا۔ تحریر میں اگرچہ کچھ املاء اور گرائمر کی غلطیاں بھی موجود ہیں۔ شاید پروف ریڈنگ اچھے طریقے سے نہیں کی گئی اور جلد بازی میں چھاپا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہیں ایسا نہیں ہوا کہ بات کی سمجھ نہ آئی ہو یا لکھاری کی گرفت کرداروں پہ کمزور پڑی ہو۔

کرداروں کی بات کی جائے تو سکندر اور فاطمہ جیسے کردار اپنی مثال آپ ہیں۔ ہاں مگر جس طرح ”عباس” نامی کردار کی خوبصورتی کا ذکر کیا گیا ہے بھئی ایسی خوبصورتی نہ دیکھی نہ کبھی سنی۔ ویسے یہ بات بھی عقل سے عاری لگتی ہے کہ کیسے ایک لڑکی لندن میں کسی کی صرف ایک جھلک دیکھے اور اسے اس سے محبت ہو جائے۔ اور پھر دوبارہ اسے ڈھونڈنے کی خاطر وہ لندن کے کئی چکر لگائے اور پھر اسی محبوب کی تلاش میں انڈیا سے ہوتی ہوئی پاکستان آ پہنچے۔ ہاں شاید اسے ہی محبت کہتے ہیں اور محبت اندھی ہوتی ہے۔

تائی اماں کا کردار ہمارے معاشرے میں لالچی اور بےضمیر خواتین کی خوب عکاسی کرتا ہے۔

ویسے لکھاری کی اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک طرف تو عباس نامی کردار کی عریشہ کے لئے محبت سب سے بڑھ کر تھی جب کہ دوسری طرف اس کے منہ سے کہلوایا گیا کہ عریشہ عام سی لڑکی تھی۔ ایسا کر کے لکھاری نے خود اپنے کردار کی محبت کی توہین کر دی۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ علم حاصل کرو چاہے تمہیں اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ علمائے کرام اس کی تشریح میں بیان کرتے ہیں کہ یہاں چین سے مراد دور دراز کا سفر اور علم سے مراد دینی و دنیاوی دونوں قسم کے علوم ہیں۔ جب کہ لکھاری نے ایک جگہ اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں مراد صرف اور صرف دینی علم ہے۔ میرا خیال ہے لکھاری کو اس بات پر اپنے رب سے معافی مانگنی چاہئے۔

اسی طرح ایک اور جگہ پر لکھاری کا تراشا گیا کردار عالم دین ابراہیم تبلیغ کے دوران موبائل فون سے ویڈیو بنانے والے لڑکے کو یہ کہہ کر روک دیتا ہے کہ اسلام تصویر چھاپنے اور بنوانے کی ممانعت کرتا ہے۔ لکھاری شاید یہ نہیں جانتیں کہ موجودہ دور میں بہت سے علماء نے حرکی تصاویر یعنی ویڈیو کو جائز قرار دیا ہے اور ویسے بھی اب ویڈیو اور ٹی وی کا میڈیم استعمال کئے بغیر اسلام کی تبلیغ ممکن ہی نہیں۔

مرکزی خیال عمیرہ احمد کے ناول “پیر کامل” سے چرایا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا لاشعوری طور پر ہو لیکن ایسا ہے ضرور۔ ہمیں یہ ناول چنداں پسند نہیں آیا کہ اس سے ملتا جلتا پیر کامل (نہیں، بلکہ یہ پیر کامل سے ملتا جلتا ہے) ہم پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ اور ویسے بھی ناولوں کے معاملے میں جس نے راجہ گدھ یا اداس نسلیں پڑھ رکھا ہو ان کو یہ کیونکر بھائے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود ناول مجموعی طور پر اچھا اور پڑھا جانے کے لائق ہے۔

– Pak Destiny

One Response

  1. Anonymous Reply

Leave a Reply