تبصرہ کتاب “تیسری جنگ عظیم اور دجال”۔

– ازقلم: ایم شریف رانا –

قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کریں، لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم کو ہر دور میں ایسے علماء میسر رہے جو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہرہ ور نہیں تھے۔ جیسا کہ کبھی علماء نے چھاپہ خانوں کے خلاف فتوے دئیے تو کبھی لاوڈ سپیکر کے خلاف اور کبھی ان کو تصویر یا ویڈیو میں قباحت نظر آتی ہے۔ حال ہی میں کورونا لاک ڈاون کے پیش نظر مسجدیں کھولنے کا فیصلہ بھی کسی قدر دانش مندانہ نہیں۔ علماء کا یہ کہنا کہ مسجدیں ویران ہو گئیں ہیں بالکل غلط ہے کیونکہ اب تو ہر گھر میں مسجد بن گئی ہے اور ویسے بھی مسجد میں انتظامیہ کے دو چار افراد مل کر جماعت کی روایت برقرار رکھ سکتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی ٹیکنالوجی کے استعمال کی تو پتا نہیں ایسا کیوں ہے کہ ہمارے علماء ہمیں ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے مولانا عاصم عمر کی لکھی کتاب “تیسری جنگ عظیم اور دجال” پڑھی۔ اس میں بھی مولانا کہہ رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔

کتاب میں مولانا نے مختلف احادیث مبارکہ کی روشنی میں دجال کے آنے کی نشانیاں بتائیں اور اس وقت اہل ایمان کو کیا کرنا چاہئے یہ سب بتایا ہے۔ اور امام مہدی کا ساتھ دینےوالے اور آفات کے دور میں ایمان پر قائم رہنے والوں کے کیا انعامات ہیں ان کے بارے میں بتایا ہے۔ جہاد کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اس کے انعامات کا ذکر کیا ہے۔

teesri-jange-e-azeem-aur-dajjal-maulana-asim-umar

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے اور ہم اس کلی طور پر متفق ہیں لیکن اختلاف تب نظر آیا جب مولانا نے ہر ناکامی کا ذمہ دار امریکہ، اسرائیل کو ہی ٹھہرایا۔ ہماری تن آسانی، نالائقی کے پیچھے ان کو یہودی سازش نظر آئی۔

بہت سی باتوں سے شدید اختلاف رہا جیسا کہ ان کا کہنا تھا کہ کسی چیز کے پیٹنٹ کے حقوق حاصل کرنا دراصل مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہے۔ جیسا کہ انگریزوں نے چاول کا بیج تیار کر کے اس کا پیٹنٹ خرید لیا ۔اب مسلمان وہ بیج خود تیار نہیں کر سکتے۔ یہ مسلمانوں کو غذائی قلت کا شکار کرنے کی ایک سازش ہے۔بندہ پوچھے مسلمان خود تحقیق کیوں نہیں کرتے۔ اور کوئی بھلا اپنی تحقیق کا پھل کسی اور کو کیوں دے گا۔

دورجدید میں غذائی قلت سے بچنے کے لئے مصنوعی خوراک تیار کی جا رہی ہے اور خوراک کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کے طریقے دریافت کئے جا رہے ہیں لیکن مولانا کو اس مصنوعی خوراک میں بھی سازش نظر آتی ہے کہ یہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازش ہے اور کفار مسلمانوں کو اصلی دیسی خوراک سے ہٹانا چاہ رہے ہیں۔

کتاب 2009 میں لکھی گئی تھی تو اب 2020 تک مولانا کی کی گئی بہت سی پیشین گوئیاں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔لگتا مولصوف صرف دل کو تسلی دینے کی خاطر ایسی پیشین گوئیاں کرتے رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح روس افغانستان میں آیا اور ٹوٹ گیا اسی طرح امریکہ بھی افغانستان سے نکلنے سے پہلے ٹوٹ جائے گا۔ لیکن امریکہ تو فی الحال صحیح سلامت ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ہم نے مفتی ابولبابہ شاہ منصور کی کتاب “دجال، کون، کب اور کہاں” پڑھی تھی تو اس میں مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ نیسلے کے منرل واٹر میں منی کے قطرے شامل کر دئیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد بھی مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے۔ خدا پناہ کیسی کیسی نان سینس باتیں کرتے ہیں یہ لوگ۔

المختصر کہ ہم نے تو کتاب پڑھ کر اپنا وقت ہی برباد کیا۔ دانش واران قوم کو اس امر پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ ایسے کون سے عوامل ہیں کہ جن کی بنیاد پر علماء اپنی اور مسلمانوں کی ہر ناکامی کا ذمہ دار اہل مغرب کو ٹھہراتے ہیں اور مدارس و علماء کو بھی جدید علوم سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے کہ ترقی تب ہی ممکن ہے جب دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلا جائے.

|Pak Destiny|

One Response

  1. امجد علی Reply

Leave a Reply