ستمبر کا مہینہ ستمگر، عمران پنجاب اور کے پی اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن میں جانے کا سرپرائز دینے کو تیار

punjab kpk assemblies dissolve in september imran khan surprise
  • حکومت نے نئے آرمی چیف پر اسٹیبلشمنٹ کی بات نہ مانی تو ایم کیو ایم،باپ پارٹیز الگ ہو کرحکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہیں
  • زرداری کی سیاسی روپوشی پی ڈی ایم پریشان نواز کی واپسی کی دوہائیاں اپنے بھائی شہباز سے بھی ناراض

– لاہور ۔ ناظم ملک –

پاکستان کے سیاسی حالات میں ستمبر کا مہینہ ستمگر بن کر ٹوٹنے کو تیار ہے اور
دما دم مست قلندر ہونے کی شنید دی جارہی ہے،پاکستان میں سیاسی فیصلوں کی گھڑی سر پے آن پہنچی ہے اور ستمبر کو ڈیڈ لائن قرار دیا جا رہا ہے پہلا وار اتحادی حکومت یا عمران خان کریں گے بس چند دنوں کی بات باقی رہ گئی ہے،واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس گھمسان کی جنگ کا تعلق نومبر میں آرمی چیف کی تیعناتی سے جڑا ہے اور اسوقت اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور اتحادیوں نے اپنے اپنے مورچےسنبھال لئے ہیں اور اگست کے مہینے میں پاکستانیوں کو اہم سیاسی دھماکے سننے کو مل سکتے ہیں،پاور کوریڈور میں زیر گردش مختلف آپشنز اور حکمت عملیوں سے واقف ایک اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ اگست کے آخر میں ائی ایم ایف کی قسط جاری ہونے کے بعد اتحادیوں کی حکومت نے نئے آرمی چیف کے حوالے سے جو اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے وہ بات نہ مانی تو ایم کیو ایم اور باپ پارٹیوں کے حکومت سے علیہدگی کے باعث اپنی اکثریت کھو سکتی ہے جس کے بعد وفاق حکومت کو پارلیمنٹ توڑنے کا کہا جا سکتا اور نگراں سٹ اپ سے اسٹیبلشمنٹ نے جو اپنی مرضی کا فیصلہ کروانا ہوا وہ فائل سامنے رکھ کے کروا لے گی لیکن اگر کسی وجہ سے اتحادی حکومت کی اسٹیبلشمنٹ سے نہ بنی اور اتحادی قائدین پارلیمنٹ تحلیل کرنے سے انکاری ہوئے تو عمران خان اس نظام کا تیہ پانچہ کرنے کےلئے ستمبر میں پنجاب اور کے پی کی اپنی دونوں حکومتوں کو توڑ کر نئے سرے سے ان صوبوں میں الیکشن میں جانے کا سرپرائز دینے کو تیار بیٹھے ہیں جو کہ اتحادیوں پر بجلی بن کر گرےگا،بتایا گیا ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی بات مان کر ستمبر میں پارلیمنٹ توڑ کر نئے الیکشن کرانے کا اعلان کرتے ہیں تو آئینی طور 60 دنوں کے اندر بھی نئے الیکشن ہو کر 20 نومبر تک نئی حکومت معرض وجود میں آسکتی ہے جو نومبر میں نئے آرمی چیف کا تقرر کر سکتی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم بتا جا رہا ہے،ذرائع نے بتایا ہے کہ اگر ستمبر میں عام انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو عمران خان ستمبر میں اپنے دونوں صوبوں میں الیکشن میں جا سکتے ہیں اس صورت میں ان کی عوامی مقبولیت کودیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ الیکشن جیت کے دونوں صوبوں میں اپنی حکومت بنا لیں اور جب ایک سال بعد عام قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو مذکورہ بالا دونوں صوبوں میں عمران اپنی صوبائی حکومتوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی کے الیکشن میں بھی بھاری اکثریت حاصل کر لیں اور ایک بار پھر وزیراعظم بن جایئں،بتایا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہنی مون پریڈ ختم ہو چکا ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہے،زرداری اور نواز شریف اپنی اپنی سیاسی بقاء کےلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں،بتایا گیا ہے کہ اتحادی حکومت شکست کے ڈر سے کسی صورت الیکشن میں نہیں جانا چاہ رہی اور اس غرض سے وہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد دو سالہ نگران سٹ اپ لانے کےلئے تانے بانے بننے کی کوششیں کر رہے ہیں، اتحادی عمران کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں اتحادیوں کا کہنا ہے کہ عمران کا ہر صورت راستہ روکنا ہےاسلئے ہم مدت پوری کریں نہ کریں لیکن الیکشن میں ان کا اسوقت جانا سیدھی سادھی شکست ہوگی کہا جا رہا کہ ایک دو سالہ نگراں سٹ اپ ہو اس دوران وہ عمران کی عدالتوں اور اداروں کےذریعے عوامی مقبولیت کی کمر توڑ سکیں گے،ذرائع نے بتایا ہے کہ نواز شریف اپنے بھائی میاں شہباز شریف سے بھی ناراض ہیں جو ان کی محفوظ ملک واپسی کی راہ ہموار نہیں کر رہے

|Pak Destiny|

Leave a Reply