Put yourself in Nawaz shoe

از ڈاکٹر عامر میر

فیصل:یار یہ نوازشریف بھی پاگل ہے۔کب سے اسے نثار و شہباز سمجھا رہے ہیں۔ڈفر کو سمجھ ہی نہیں آتی اور اب سب کچھ کٹوا کے بیٹھ گیا ہے اور اس کی یہ ضدی طبیعت اسے یہاں تک لے آئی ہے۔
زاھد:پُٹ یور سیلف ان نواز شوز اینڈ دین ٹالک۔
فیصل:سمجھا نہیں
زاھد:سمجھاتا ہوں۔پی ایم شپ کی سب سے زیادہ کشش اُس وقت تک ہے جب تک ناں ملے۔شہباز،نثار،عمران کو ابھی تک پی ایم شپ ملی نہیں اس لئے وہ اسے پانے کے لئے جنرلز کی ہر بات ماننے کی فلاسفی پہ یقین رکھتے ہیں۔ایک زمانے میں نواز بھی اسی سوچ پہ یقین رکھتا تھا۔پہلی دفعہ وزیراعظم بنا بھی اسی بات کو فالو کر کے تھا۔
لیکن
اور اس لیکن سے اصل بات شروع ہوتی ہے۔دیکھیئے جب آپ وزیراعظم ایک دفعہ بن جاتے ہیں اور اگر آپ کے پیچھے عوام کی کچھ طاقت ہوتی ہےتو آپ کو پتہ لگتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق اس ملک کے آپ سب سے بڑے ہیں۔سربراہ ہیں۔اس ملک کی پالیسیز بنانا اور چلانا تو بیسکلی آپ کا کام ہے۔جب آپ یہ کام کرنے لگتے ہیں تو جنرلز کو یہ بات چبھتی ہے۔بُری لگتی ہے۔پاکستان میں انڈیا اور امریکہ و افغان پالیسی دو مین چیزیں ہیں۔پاکستان کا باقی سب کچھ ان دو پالیسیز سے ریلیٹڈ ہے۔جنرلز ان پالیسیز میں کسی کی بھی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔بینظیر نے پہلی دفعہ آتے سار سکھوں کی لسٹیں وغیرہ مطلب یہ پالیسی اپنے ھاتھ میں کرنے کی کوشش کی۔رزلٹ آپ کے سامنے ہے۔دوسرا ٹینور بینظیر نے سب مسیو ہو کر گزارا اور اس کا بھی کیا فائدہ ہوا؟جنرلز سے بھی پاور میں چھوٹے فاروق لغاری نے ہی فارغ کر دیا۔تیرا کیا خیال ہے کہ نواز کو یہ بات یاد نہیں ہے؟
فیصل:مطلب؟
زاھد:مطلب نواز سوچتا ہے کہ آخر کتنا سب مسیو ہو کر رہوں؟بینظیر نے سیکنڈ ٹینیور میب ٹوٹل یس سر کیا اور جنرلز سے بھی پاور میں چھوٹا اور اپنا لگایا ہوا فاروق لغاری۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ پی ایم بننے کے بعد جب آپ دیکھتے ہیں کہ انڈیا کا وزیراعظم کتنا سٹرونگ ہے؟تو آپ کا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی انڈیا کے پی ایم کی طرح حکم چلاؤں۔امریکہ کا جب کوئی بھی بڑا آفیشل آتا ہے تو مہینوں پہلے لسٹ بن جاتی ہے کہ یہ کس کس سے ملے گا؟یہ والی لسٹ تو وزیراعظم ضرور دیکھتا ہے۔جب اس لسٹ میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ آفیشل دوپہر کو پی ایم اور شام کو چیف سے ملے گا تو وزیراعظم کو کھچ چڑتی ہے کہ وزیرعظم تو میں ہوں یہ چیف سے کس حساب میں ملے گا؟جب نواز دیکھتا ہے کہ دنیا کے تقریبا ہر بڑے ملک میں آخری فیصلے کا اختیار صرف سربراہ مملکت کے پاس ہے چیف کے پاس نہیں تو اس کے دل میں خواہشں جنم لیتی ہے کہ پالیسیز و معاملات میں اپنے ہاتھوں میں کروں۔یہی خواہش واجپائی کو بلاتی ہے اور اسی خواہش کو کارگل کر کے سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔اسی خواہش کے زیراثر زرداری نے آئی ایس آئی کو رحمان ملک کے انڈر کرنے کی کوشش کی تھی۔اسی خواہش کے زیراثر نواز جنرلز کی ناپسندیدگی کے باوجود مودی کی تقریب حلف برداری میں چلا جاتا ہے۔نوازشریف پہلے ہی دو دفعہ وزیراعظم بن چکا ہے۔خالی خولی،ٹوٹھ لیس پا لیس پی ایم شپ میں اس کے لئے اب کوئی اٹریکشن نہیں ہے۔وہ فل فلیج پورے اختیار والی پی ایم شپ چاھتا ہے جو جنرلز اُسے دینا نہیں چاھتے اور رزلٹ جھگڑا ہے۔نواز کی فی الحال تک کی ہوئی پالیٹکس سے یہ لگتا ہے کہ وہ اب مفاہمت یا گیو اینڈ ٹیک کے موڈ میں نہیں ہے۔دوسری طرف جنرلز بھی اب نواز کو سپیس دینے کے موڈ میں نہی ہیں۔
فیصل:لے ایویں فضول ہی۔نواز کو تو ججوں نے کرپشن پہ فارغ کیا ہے۔
زاھد:ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی۔اگر بےبی فیڈرانہ گفتگو کرنی ہے تو میری طرف سے اس موضوع پہ گفتگو ختم ہو چکی ہے۔
فیصل:او نئیں۔میرا خیال ہے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ یہ مسئلے نہی ہوں گے۔
زاھد:غلط فہمی ہے تیری۔وزیراعظم عمران خان کے ساتھ یہ مسئلہ شاید پہلے ٹینور میں ہی شروع ہو جائے۔یہ مسئلہ ہر اُس وزیراعظم کے ساتھ ہوئے گا جس کے پیچھے ووٹ کی کچھ ناں کچھ طاقت ہو گی۔اس چیز کا احساس جنرلز کو بھی ہے اسی لئے اب وہ کچھ دست شفقت زرداری کے سر پہ بھی رکھ رہے ہیں اور زرادری صاحب بھی موقع کی نزاکت دیکھ کر آجکل بیبا بچہ بنے ہوئے ہیں۔آجکل سوچ یہ ہے کہ ن لیگ کو تو خیر کسی صورت میجارٹی نہیں لینے دینی کیونکہ نواز پھر آ جائے گا تو زرداری و عمران کو یکجا کرنا مناسب رہے گا۔
لیٹس سی۔
پتہ ہے اس ساری پاور سٹرگل کا سب سے بڑا ایفیکٹی کون ہے؟
فیصل:کون؟
زاہد:عوام۔
یہ سب بڑے،ان سب بڑوں کے دماغ آپسی پاور سٹرگل میں مصروف ہیں اور پس عوام رہی ہے۔عوام کی طرف ان لوگوں کی توجہ اُس وقت ہی جائے گی جب یہ آپس میں نبٹر لیں گے۔تب تک صبر کیجیئے اور اپنی انڈیویجول اکانومی پہ توجہ دیجیئے۔اس ملک میں وہی سکون میں ہے جس کی انفرادی معیشت ٹھیک ہے۔رولنگ کلاس سے اچھائی کی کوئی توقع بھی ناں رکھنا۔

Leave a Reply