قتل کی سزا—اور یہ واویلا؟

از۔ڈاکٹر عامر میر۔(www.PakDestiny.com)

سچ تو یہ ہے کہ انصاف کی بات جذباتیت نہیں ٹھنڈے دل و دماغ کا کام ہے- قادری کی پھانسی پرجہاں کئی لوگ طلاطم جذبات میں سڑکوں پر نکل آۓ تو کچھ نے اس نرے قاتل کوغازی اور شہید قرار دیدیا۔میری سلمان تاثیر سے کوئی دوستی تھی نہ قادری سے کوئی بغض- بات مقتول کی وکالت کی بھی نہیں- سلمان تاثیرکی شکل صورت کوئی خاص تھی نہ ان کا کردار قابل رشک تھا-
اورتوھین رسالت کو بھی ھمارے معاشرے میں معمولی گناہ یا نا قابل مواخذہ جرم نہیں سمجھا جاتا۔حب رسول ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے—
سوال لیکن یہاں بڑا سیدھا سا ہے کہ آیا تعذیرات پاکستان کے دفعہ 229 سی کو کالا قانون کہنے سے توھین رسالت کا ارتکاب ہوا تھا؟–اگرمان بھی لیا جاۓ کہ ارتکاب جرم واقعتا” ہوا تھا تو اس پر سزا دینے کا حق کس کو تھا؟؟؟؟
یقینا” یہ کام عدالت کا تھا کہ مقدمہ پر فیصلہ دیتی اوراس پرانتطامیہ عملدرآمد کرتی— کہتے ہیں یہ عدلیہ اور انتظامیہ ایسا کہاں کرتی؟؟؟اگر عدلیہ کرپٹ ہے اور انتظامیہ بھی فاسق و فاجر ہے تو ایسی صورت حال میں ایک فرد کے لیۓ شریعت کا حکم کیا ہے؟—- ظاہر ہے یہ کوئی ذاتی دفاع والی غیر معمولی صورت حال تو تھی نہیں کہ جس میں بحالت مجبوری بقدر ضرورت طاقت کا دفاعی استعمال درست قرار دیا جاۓ– جو شخص بھی شریعت کا شد بد رکھتا ہو، اور ایمانداری و غیر جانبداری سے تحقیق کرے وہ تسلیم کرے گا کہ اسلام کسی شخص کو ذاتی حیثیت میں یہ حق نہیں د یتا کہ حدودوتعذیرات کے معاملے میں خود قاضی بنکر فیصلہ صادر کرے اورخود ہی جلاد بن کرکسی کی جان لے- اگر ریاست کے عمال اتنے فاسق و فاجرہوں کہ وہ حدودوتعذیرات میں تساہل بھرت رہے ہوں تو اس کا متبادل قطعا” یہ نہیں کہ قانون خود ہاتھ میں لیکر فتنہ وفساد برپا کردیا جاۓ- افراد،معاشرہ۔۔۔۔ریاست کے فیصلہ سازوں کو تبدیل کرنے کی کوشش یقینا کرے لیکن خود خدائی فوجدار بنکر لوگوں کی جان و مال کے درپے ہونے کی اجازت اسلام نہیں دیتا—
قادری نے یہی غلطی کی اور اس کا خمیازہ بھگتا- اس باب میں جذباتیت کی بجاۓ حقائق اور شریعت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر انصاف کی بات کرنی چاہیۓ، خواہ ایسا کرنا ہمیں خوشگوارلگے یا ناخوشگوار-

4 Comments

  1. وسیم راجپوت Reply
  2. Hafiz M Arif Dar Reply
  3. Hafeezul Hasan Reply

Leave a Reply