A shy vs bold man

A shy vs bold man

از ڈاکٹر عامر لاھوری

شفیق گریجویشن مکمل کر کے سٹڈی ویزے پر یو کے چلا گیا، تین سال میں بینکنگ سپیشل کے ساتھ ایم بے اے کیا، تو اسے ایک پاکستانی بینک میں انٹیرن شپ ملی۔

وہاں مقیم رشتے کے ماموں کی وساطت سے،جو اس کی ویسے بھی دیکھ بھال کرتے تھے، اسے ورک پرمٹ بھی مل گیا، انہوں نے اسے شہریت لینے کا بھی کہا لیکن شفیق کا دل اپنی ماں اور پرانی ہم جماعت زوبیہ کی وجہ سے پاکستان میں اٹکا ہوا تھا،پڑھائ کے دوران وہ صرف ایک مرتبہ چھوٹی بہن کی شادی پے گھر آیا تھا،
اسی بنک میں نوکری مل گئ اور مزید چھ ماہ بعد جب بنک والوں نے اسے
اسلام آباد کی برانچ میں فارن ایکسچینج کے انچارج کی پوسٹنگ آفر کی تو اس نے فورا” قبول کر لی،
ماموں تو اس کی اپنی ایک بیٹی سے شادی میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن شفیق کے دل میں اپنے زوبیہ کے ساتھ ادھورے خوابوں کی تکمیل اور تعبیر
جا گزین تھی ، اور وہ پاکستان لؤٹ آیا،
بنک کی اسلام آباد برانچ مشہور کمرشل مرکز میں ہے، اور اس کے نزدیک ہی بنک نے اسے مکان کرایہ پر لے کے دیا، اس کی پوزیشن چیف آپریشن مینجر کے نائب کی تھی، لاکرز کا چارج بھی اس کے پاس تھا،
اور ایک دن برانچ میں ایک میاں بیوی اپنا لاکر آپریٹ کرنے آئے،وہ بنک کے حال میں بیٹھے تھے، جب ایک اسسٹنٹ نے لاکرز رجسٹر اور آپریشن ریکویسٹ شفیق کے سامنے رکھی ، جس پے نام زوبیہ افتخار اور افتخار ملک لکھے تھے،
شفیق نے نام پڑھے، اس کو بدن میں سنسنی محسوس ہوئ، غیر ارادی طور پے اس نے اسسٹنٹ سے انہیں اپنے کمرے میں بلانے کو کہا، عام طور ہے تو اسے دستخط کی تصدیق کر کے لاکر روم میں جا کے ان کے ساتھ بنک کی اور گاہک کی چابی سے لاکر کھولنے کے بعد اپنی چابی سے ہاف لاک بند کر کے واپس آنا ہوتا تھا،

اس کا اضطرار صحیح اس وقت نکلا، جب اس کے سامنے اس کے کالج کے دوست اور ہم جماعت، زوبیہ اور افتخار میاں بیوی کے روپ میں بیٹھے،
کمرے میں عجیب سکوت طاری ہو گیا، تینوں کو صورت حال سمجھنے میں اور اس کا سامنا کرنے میں آگ کے طوفان سے گزرنا پڑا،
ماضی کا آسیب پھن پھلا کے ان کے سامنے کھڑا تھا، کالج میں زوبیہ اور شفیق ہر وقت اکھٹے ہوتے، کینٹین، لائبریری ، کلاس میں، ڈیبیٹ ہوتی تو دونوں مقابل ہوتے، کلاس میں بیت بازی میں آخری مقابلہ ان میں ہوتا، شفیق لڑکوں کا کلاس نمائندہ ہوتا تو زوبیہ لڑکیوں کی لیڈر، افتخار کی دوستی دونوں سے تھی لیکن وہ ہمیشہ خاموش تماشائ ہوتا،
جب سکتے سے باہر آئے تو شفیق نے دونوں۔ کو شادی کی مبارک باد دی،
ساتھ والی بیکری سے کیک منگوایا اور کافی بنوائ، گفتگو پر تکلف اور ادھر اُدھر کی باتوں پے ہوتی رہی، نہ افتخار اور زوبیہ نے شفیق سے اس کی شادی ہونے یا نہ ہونے کا پوچھا اور نہ ہی شفیق یہ پوچھ پایا کہ ان کی شادی کیوں ،کیسے اور کب ہوئ،
لاکرز روم جانے لگے تو افتخار نے زوبیہ سے کہا کہ تم لاکر آپریٹ کرو، میری ایک ضروری میٹنگ ہے ڈرائیور کو واپس بھیج دوں گا، اس کے ساتھ گھر چلی جانا اور وہ چلا گیا
شفیق اور زوبیہ لاکرز روم میں گئے تو زوبیہ نے کہا،
تم اس بات سے پریشان ہو وہ تو یہ ہے کہ
میں نے تمہارا انتظار کرنے کی بجائے افتخار سے شادی کیوں کی
تو سنو
تم مجھے بہت پسند تھے، لیکن تم نے ہمیشہ میرے ساتھ پیار محبت کی بحث کی،
تم یہ چاہتے تھے کہ پیش قدمی میں کروں،
، تم بھی آدھی عورت تھے
کہ محبت بھی مکمل ہو لیکن اس کا ذمہ تم پے نہ آئے،
ہم دو سال اتنے قریب رہے لیکن تم نے کبھی بھی اتصال کی ہمت نہی کی،
کہ تم خائف تھے،
تمہارے ولائت جانے کے بعد میں افتخار سے ملی ،
تو اس نے مجھے پڑھا نہی، بس میرا ورق در ورق کھول دیا،
ہماری کبھی پیار ، محبت اور عشق پے گفتگو ہوئ ہی نہیں،
لیکن اس کے سارے اعمال افتخار بنا مجھ سے اجازت مانگے بجا لاتا تھا
اُس نے مجھےتحہ درتحہ کھولا، ،
اور بجائے زبانی کلامی مجھے بیان کرنے
کے مجھے عمل سے پڑھا،
اس لئے میں مجبور ہو گئ،
شفیق نے اگلے روز ماموں سے واپس یو کے ٹرانسفر کرانے اور اس کی شادی کا بندوبست کرنے کے لئے فون کر دیا
اور اپنی ماں کے ویزے کی سپانسر شپ کا بھی کہہ دیا۔
مورل:
بہت کم مردوں کو اس بات کو سمجھ ہے کہ زیادہ تر عورتیں ڈریگ کیے جانے کو پسند کرتی ہیں۔آواز دے کر پاس بلانے کی بجائے اگر آپ عورت کے پاس جا کر اسے ھاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچیں تو وہ کھچی چلی آتی ہے۔سب نہیں لیکن زیادہ تر عورتیں یہ پسند کرتی ہیں اور دل سے یہ چاہ رہی ہوتی ہیں۔

* یہ تحریر محمد خان صاحب کی ہے لیکن مورل ڈاکٹر لاھوری کا لکھا ہوا ہے۔

Leave a Reply