– تحریر۔راؤ محمد جمیل –
شہر قائد میں صرف دو درجے کے صحافی پائے جاتے ہیں ایک اعلیٰ درجے کے جن میں مختلف لیڈران اور انکے خصوصی چمچے جبکہ دوسرے درجے میں عام صحافی شامل ہیں اعلیٰ درجے کے صحافی تعدادمیں انتہائی قلیل ہونے کے باوجود وہ صحافت پر راج کرتے ہیں مختلف اداروں کے مالکان اور حکمرانوں سے خصوصی مراعات حاصل کرتے ہیں اپنے اہل خانہ کیلئے پر آسائش سہولیات حاصل کرکے پوش زندگی گذارتے ہیں لیکن اپنے چمچوں کو بھی نوازتے ہیں جبکہ دوسری جانب عام صحافی بے روز گاری ،
بے روزگار ہونے صحافی فہیم مغل نے خودکشی کرلی، ادارے سے نکالے جانے کے بعد کرائے کا رکشہ لے کر چلانا شروع کیا، پیٹرول کے بڑھتے داموں کی وجہ اور ہڑتال کے باعث تنگ آکر چار گھنٹے قبل پنکھے سے جھول گیا،
کرائے کے گھر میں مقیم صحافی چار بچے تھے، بینک کے 60 ہزار قرض کی وجہ سے پریشان تھا pic.twitter.com/YFpDfxUwrI— Umair Dabeer (محــــــمد عـــــــمیر دبیــــــر) (@UmairDabeer) November 25, 2021
تنخواہوں اور واجبات کی عدم دستیابی کی دلدل میں دھس کراہل خانہ سمیت المناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مراعات یافتہ صحافی طبقہ مختلف صحافی تنظیموں اور اداروں پر ہی نہیں کراچی پریس کلب پر بھی قابض ہے وہ عام صحافیوں کو اقدار صحافت کی سیڑھی تو سمجھتے ہیں وائے افسوس کبھی انکے دکھ درد اور انکی فاقہ کشی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ انکے چمچے انہیں لیڈر اور مسیحا قرار دینے کیلئے مراعات اور مال غنیمت میں سے چند بچے کھچے ٹکڑوں کی خاطر ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے دن رات انکی نغمہ سرائی کی ڈیوٹی بھی سرانجام دیتے ہیں اب تو ویسے بھی سیاسی جماعتوں اور خصوصاً جماعتیوں کی ایک فوج پریس کلب اور بعض صحافتی تنظیموں میں شامل کردی گئی ہے تاکہ ان خود ساختہ اور مفاد پرست صحافی لیڈروں کی اجارہ داری قائم رہے اگر کوئی عام صحافی حق گوئی کی گستاخی کرے تو انکے چمچے اسکی کردار کشی اور روایتی جماعتی انداز میں دھمکیوں اور سازشوں سے بھی باز نہیں آتے وہ ایسے دیانت دار عام صحافیوں کے مقابلے میں بدنام لینڈ مافیا اور جرائم پیشہ قوم پرست اور کالعدم جماعتوں کے کارندوں کی بھی سہولت کاری کرتے ہیں کیونکہ یہ حادثاتی صحافی ہوتے ہیں جنہیں نام نہاد لیڈران حصول اقتدار کیلئے ناصرف صحافت کے مقدس پیشے میں لاتے ہیں بلکہ صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کی ممبر شپ بھی مہیا کرتے ہیں چاہے وہ کسی جماعتی ادارے میں AK 47 کے ساتھ ڈیوٹی دیتے رہے ہوں یا کمپیوٹر آپریٹر کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے ہوں میں چاہوں گا کہ ہمارے وہ صحافی جو خود کو انتہائی سینئر اور صحافیوں کا خیر خواہ کہتے ہیں اور کسی نہ کسی صحافتی تنظیم سے وابستہ ہیں یا کسی ادارے میںاعلی عہدے پر فائز ہیں وہ محمد فہیم کی بےروزگاری کے باعث ہونے والی اس المناک موت پر کم از کم دل چھو لینے والی پوسٹ ہی لکھ دیں بالکل ویسی پوسٹ جیسی نسلہ ٹاو ر پر لکھی گئی،
چڑیا گھر کے شیر کی بھوک سے موت پرتو یہ صحافی لیڈران حرکت میں آئے لیکن ایک انسانی جان شاید ان کے لئے زیادہ اہم نہیں ۔انہیں چاہیئے کہ اپنی تحریروں سے میڈیا مالکان کی دھجیاں اڑادیں تاکہ مالکان کو بھی علم ہو کہ ابھی صحافت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان کا گریبان پکڑ سکتے ہیں۔ فضول اینکرز اور نام نہاد تجزیہ کاروں کو چالیس چالیس لاکھ تنخواہیں دیتے ہیں لیکن ایک غریب ورکر کی بیس سے تیس ہزار تنخواہ دیتے ہوئے ان میڈیا مالکان کو موت آجاتی ہے۔ موت تو ان میڈیا مالکان کو بھی آنی ہے پھر جب اللہ کے سامنے فہیم جیسے خودکشی کرنے والے میڈیا ورکرز ان کا دامن پکڑیں گے تو کہیں گے کاش مہلت مل جاتی۔ آخر میں یہ باور کروانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ نام نہاد لیڈران عام صحافیوں کے مرنے کے بعد انکی آخری رسومات میں مدد اور کسیدہ گوئی کی بجائے انکو اہل خانہ سمیت زندہ رہنے کے حق کیلئے کردار ادا کریں ایسا نہ ہو کہ عام صحافی کوئی انقلابی قدم اٹھا لیں گے تو پھر نہ آپکی لیڈری بچے کی نہ ہی چمچے ۔
ہمارے چاک گریباں سے کھیلنے والو
اگر ہم کو شعورِ انتقام آیا تو کیا ہوگا
|Pak Destiny|