امریکہ کو توڑنے کا منصوبہ لٹک گیا چین روس ایران شمالی کوریا ٹرمپ کی شکست پر مایوس

trump joe biden imran khan hassan rohani putin boris johnson modi xi ping break america plan postponed

– لاہور۔ ناظم ملک –

* برطانیہ بھارت خلیجی ممالک اپنی چوہدراہٹ ختم ہونے پر پریشان

* ٹرمپ کی ہار سےامریکہ کو اقتصادی طور پر تباہ،عالمی سطح پر تنہا اور فوجی شکستوں سے دوچار کرنے کا ایجنڈہ لٹک گیا

* پاکستان افغانستان پر کوئی فرق نہیں پڑے گاجوبائیڈن مرہون منت رہےگا

امریکہ کے کٹر مخالف ممالک چین روس ایران شمالی کوریا ہٹلر سوچ کے حامل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست اور جوبائیڈن کی جیت پر سخت مایوسی ہوئے ہیں ان ممالک کے نزدیک ٹرمپ ان کے ایجنڈے،امریکہ کو شکست و ریحت سے دوچار کر نے اقتصادی طور پر کمزور،عالمی سطح پر تنہائی کاشکار، امریکی عوام و معاشرے کے درمیان بڑھتے عدم برداشت کے خاتمے،فوجی شکستوں پر عمل پیرا تھے جبکہ برطانیہ خلیجی ممالک اور انڈیا خطے میں اپنی چوہدراہٹ کے بڑھتے عمل کے رک جانے سے پریشان ہیں جبکہ پاکستان اور افغانستان امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں دیکھ رہے،
چین اگر آپ کو لگے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار سے بیجنگ کو خوشی ہوگی تو غلط ہے ٹرمپ نے چین کو تجارتی طور پر نشانہ بنایا، چین پر کئی طرح کی پابندیاں لگائیں اور کورونا وائرس کے لیے بھی انھیں ذمہ دار ٹھہرایا۔لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اندر سے چینی قیادت اب مایوسی کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ٹرمپ کو پسند کرتے تھے، بلکہ اس لیے کہ وائٹ ​​ہاؤس میں ان کے مزید چار سالوں نے امریکہ میں مزید خرابی کا امکان ختم کر دیا ہے۔ملک میں تفرقے بازی، عالمی دنیا میں تنہائی، ٹرمپ بیجنگ کے لیے ایک ایسے شخص تھے جو امریکی اثر و رسوخ اور طاقت میں کمی لانے کا سبب بن سکتے تھے لیکن بائیڈن ازسرنو دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ کے اتحاد کو بحال کرنے کے لیے کام کریں گے، جو چین کے سپر پاور عزائم کو خطرے میں ڈال سکتا ہے بائیڈن کی فتح جمہوری کنٹرول کے بغیر چلائے جانے والے چینی نظام کے لیے ایک اور چیلنج پیش کرتی ہے۔ اقتدار کی منتقلی اس بات کا ثبوت ہو گا کہ امریکییوں کے اقدار آج بھی برقرار ہیں،

بھارت میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ بی جے پی جیسا انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والےان کے اہم اتحادی ٹرمپ کی شکست سے اب وہ چین کے رحم وکرم ہر ہوں گے،نو منتحب نائب صدر کملا ہیریس کے آباؤ اجداد کا تعلق انڈیا سے ہونے پر وہاں کے عوام فخر محسوس کر رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے مقابلے میں نریندر مودی کو جو بائیڈن سے زیادہ سردمہری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔انڈیا ایک طویل عرصے سے امریکہ کا اہم پارٹنر رہا ہے – اور بائیڈن کی صدارت کے دوران مجموعی طور پر ان تعلقات میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔

چین کے اثر و رسوخ کو روکنے اور عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی انڈو پیسیفک حکمتِ عملی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک اہم اتحادی رہے گا۔تاہم بائیڈن اور انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے مابین ذاتی تعلقات میں کچھ مشکلیں آ سکتیں ہیں۔ ٹرمپ، مودی کی متنازعہ اندورنی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔بائیڈن بغیر لگی لپٹی بات کرنے کے عادی ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کی ویب سائٹ پر کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے، اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور شہریت کے متنازعہ قانون (سی اے اے) پر تنقید کی گئی ہے۔ یہ وہ دو قوانین ہیں جنھوں نے انڈیا میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا۔نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس – جو آدھی انڈین ہیں، نے بھی ہندو قوم پرست حکومت کی کچھ پالیسیوں کے خلاف اظہار خیال کیا ہے۔ لیکن ان کے انڈیا سے تعلق پر ملک کے بیشتر حصوں میں بڑے پیمانے پر جشن منایا جائے گا۔ چنئی شہر میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والی ایک انڈین خاتون کی بیٹی جلد ہی وائٹ ہاؤس میں سیکنڈ ان کمانڈ ہوں گی، یقیناً یہ قومی فخر کا لمحہ ہے،

شمالی کوریا نے ایک بار بائیڈن کو ’پاگل کتے‘ سے تشبیہ دی تھی – لیکن اب کم جونگ ان نئے امریکی صدر کو مشتعل کرنے کی کوئی بھی کوشش کرنے سے پہلے ضرور سوچیں گے۔خیال تو یہی ہے کہ کِم چاہتے ہوں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، مزید چار سال صدر رہتے۔اگرچہ ٹرمپ کے دورِ اقدار میں دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ملاقاتیں کیں، اکھٹے تصاویر بھی کھنچوائیں جو تاریخ کی کتابوں میں تو جگہ بنائیں گی لیکن کسی اہم معاہدے پر دستخط نہ ہو پائے۔ ان مذاکرات میں کسی بھی فریق کو وہ چیز نہیں ملی جس کی وہ خواہش رکھتے تھے: شمالی کوریا نے اپنے جوہری ہتھیار بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور دوسری جانب امریکہ بھی سخت پابندیاں عائد کرنے سے باز نہیں رہا۔جو بائیڈن نے شمالی کوریا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صرف اس صورت میں کم جونگ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کی ملاقات کریں گے جب شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ترک کرنے پر رضا مندی ظاہر کرے۔ بہت سارے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر بائیڈن کی ٹیم پیانگ یانگ کے ساتھ جلد بات چیت کا آغاز نہیں کرتی، تو کشیدگی کے دن واپس آسکتے ہیں۔کِم، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تجربات دوبارہ کرکے، واشنگٹن کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں، لیکن وہ تناؤ میں اس حد تک اضافہ نہیں کرنا چاہیں گے کہ پہلے ہی سے اس غریب ریاست کو مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے۔ٹرمپ کی ہر جائز و ناجائز میں ہاں ملانے والے برطانیہ بائیڈن کے دورِ صدارت میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان’خصوصی تعلقات‘ کو تنزلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دونوں ممالک کو حلیف کی حیثیت سے نہیں دیکھا جائے گا: جو بائیڈن ایک تجربہ کار ڈیموکریٹ ہیں جبکہ بورس جانسن بریگزیٹ والے ایک شعلہ زبان وزیرِ اعظم ہیں۔

مستقبل کے ان کے تعلقات کیسے چل سکتے ہیں، یہ دیکھنے کے لیے ماضی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر 2016 کا وہ آخری سال جب ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کامیابی حاصل کی تھی اور برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اس وقت جو بائیڈن اور ان کے باس، براک اوباما نے کھلے عام بتا دیا تھا کہ بریگزیٹ کے بارے میں وہ کسی اور طرح کے نتائج کو ترجیح دیں گے

بریگزیٹ کے سلسلے میں برطانوی حکومت کی حالیہ تدابیر، امریکہ میں اہم ڈیموکریٹس، نو منتخب صدر اور آئرش لابی کو کچھ خاص پسند نہیں آئیں۔ بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو بریگزیٹ کی وجہ سے شمالی آئر لینڈ کے امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں امریکہ اور برطانیہ کے درمیان کوئی بھی معاہدہ صرف اس صورت میں ممکن ہو گا اگر اس میں گڈ فرائیڈے والے معاہدے کا احترام شامل ہو۔یاد ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بورس جانسن کو ’برطانیہ کا ٹرمپ‘ پکارا تھا؟ خیر بائیڈن نے بھی بھی بظاہر اس سے اتفاق کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر اعظم کو ٹرمپ کے ’جسمانی اور جذباتی کلون‘ کے طور پر بیان کیا تھا۔ لہذا یہ ممکن ہے کہ شروع میں جو بائیڈن لندن کے بجائے برسلز، برلن یا پیرس کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہاں ہوں۔ دونوں ممالک کے درمیان ’خاص رشتے‘ کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ کرسکتا ہے۔تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں افراد کسی مسئلے پر اکھٹے ہو جائیں۔ خیر سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے علاوہ دونوں ممالک کے دیرینہ اور گہرے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔

روس جس پر الزام ہے کہ اس نے امریکی نظام ہیک کرکے پچھلا الیکشن ٹرمپ کو جتوایا تھا کے لیے بائیڈن کی جیت کا مطلب ہے ایک ایسی انتظامیہ جس کے متعلق آپ پیش گوئی کر سکیں۔کریملن میں بیانات کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب حالی میں جو بائیڈن نے روس کو امریکہ کے لیے ’سب سے بڑا خطرہ‘ قرار دیا ہے تو ماسکو میں اس بیان پر اچھا خاصا ردِعمل دیکھا گیا۔کریملن کی یادداشت بھی بہت طویل ہے۔ 2011 میں نائب صدر بائیڈن نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اگر وہ پوتن ہوتے تو دوبارہ صدر کے عہدے کا انتخاب نہیں کرتے: یہ ملک اور خود ان کے لیے برا ہوگا۔ صدر پوتن یہ بات کبھی نہیں بھول سکتے۔بائیڈن اور پوتن بہترین سیاسی حالات میں ہم خیال دوستوں کی طرح نہیں ہیں۔ ماسکو کو خدشہ ہے کہ بائیڈن کی صدارت کا مطلب واشنگٹن سے زیادہ دباؤ اور زیادہ پابندیاں ہوں گی۔ تو کیا وائٹ ​​ہاؤس میں ایک ڈیموکریٹ کی موجودگی کا مطلب اب یہ لیا جائے کہ روس کو سنہ 2016 کے امریکی انتخابات میں مبینہ مداخلت کرنے کا جواب دینا ہو گا؟ایک روسی اخبار نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ ٹرمپ کے زیرِ اقتدار، امریکہ اور روس کے تعلقات بہت خراب ہو گئے تھے۔ لیکن اخبار نے بائیڈن کو ایک ایسے ’کھدائی کرنے والے‘ سے تشبیہ دی جو ’اور بھی گہری کھوج‘ لگانے والا تھا۔ اس میں حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ ماسکو خوش نہیں ہے۔لیکن ایک چیز کریملن کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتی ہے۔ روسی مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم سے زیادہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے متعلق بہتر پیش گوئی کر سکیں گے۔ اس سے امریکہ اور روس کے درمیان کچھ امور پر سمجھوتہ کرنا آسان ہو سکتا ہے کیونکہ فروری میں دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں میں کمی کے اہم معاہدے کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔ماسکو نئے وائٹ ہاؤس کے ساتھ باہمی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

ایران بائیڈن کی فتح تہران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لا سکتی ہے۔امریکی انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہو گئے تو انھیں سب سے پہلی ٹیلیفون کال ایران کے رہنماؤں کی طرف سے آئے گی جس میں وہ بات چیت کرنے پر آمادگی کا اظہار کریں گے۔لیکن اگر ٹرمپ جیت جاتے تو جس فون کال کے وہ خواب دیکھ رہے تھے، انھیں کبھی نہیں آنے والی تھی۔ ایران کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے مذاکرات کرنا ناممکن ہوتا۔ یہ ایک بہت ذلت آمیز منظر ہوتا۔صدر ٹرمپ کے زیرِ صدارت امریکی پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی نے ایران کو معاشی تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ٹرمپ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ انھوں نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی دوست جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا۔ ان کے قتل کا بدلہ لینا سخت گیروں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔جو بائیڈن کا انتخاب ایران کے لیے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے عمل کو آسان بنا سکتا ہے۔ نو منتخب صدر بائیڈن کے ماضی کے واقعات نہیں جڑے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر واپس جانا چاہتے ہیں۔لیکن ایران کے سخت گیر رہنما آسانی سے میز پر نہیں آئیں گے۔ امریکہ میں 3 نومبر کو جب انتخابات ہو رہے تھے، سپریم لیڈر نے دعوی کیا کہ انتخابات کا تہران کی پالیسیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انھوں نے کہا ’ایران نے ایک سمجھدار اور محتاط اندازے والی پالیسی پر عمل کیا ہے جو واشنگٹن میں شخصیات کی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوسکتی۔‘خاموشی سے امریکی انتخابات کو اپنے غیرقانونی سیٹلائٹ ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھتے ہوئے لاکھوں ایرانی شاید مختلف طرح سے سوچ رہے ہوں، ان کے مستقبل کا انحصار نتائج پر منحصر ہے اور امید ہے کہ بائیڈن کی فتح سے پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔

اسرائیل کا امکان یہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا تسلسل جاری رہے گا۔اپنے دور میں صدر ٹرمپ نے تہران میں اپنے مخالفین کو الگ تھلگ کرتے ہوئے، امریکہ کے روایتی علاقائی اتحادیوں کو استحکام پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔نومنتخب صدر بائیڈن مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی کو اسی حالت میں بحال کرنے کی کوشش کریں گے جس میں انھوں نے براک اوباما کے ماتحت نائب صدر کی حیثیت سے چھوڑا تھا: وہ ٹرمپ کی ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ والی کیمپین کے اثرات کو کم کرنے اور اس کے تحت دو سال قبل ترک کیے گئے 2015 والے جوہری معاہدے پر واپس جانا چاہیں گے۔اسرائیل اور خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس امکان سے خوف زدہ ہیں۔ ایک اسرائیلی وزیر نے بائیڈن کی ممکنہ جیت کے جواب میں کہا کہ اس پالیسی کے خاتمے کا نتیجہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ’پُرتشدد تصادم‘ کی صورت میں نکلے گا۔ کیونکہ ہم ایکشن لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔بائیڈن کی جیت اسرائیلی فلسطین تنازع کے بارے میں امریکی رویہ کو ڈرامائی انداز میں بدل سکتی ہے۔ ٹرمپ کے پلان کو اسرائیل کی بھاری حمایت کرنے اور مقبوضہ مغربی کنارے کے حصے کو ملانے کا موقع فراہم کرنے کے طور پر دیکھا گیا۔ اسرائیل اور متعدد عرب ریاستوں کے مابین تعلقات قائم کرنے والے تاریخی معاہدوں میں بھی امریکہ نے مدد کی۔بائیڈن کے زیرِ صدارت علاقائی صورتحال کو ’معمول پر لانے‘ کی مہم جاری رکھے جانے کا امکان ہے، لیکن وہ خلیج کو متنازعہ امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں کمی لانے کی کوشش کرسکتے ہیں اور امکان ہے کہ اسرائیل مزید مراعات حاصل کرے گا۔ لیکن اب مقبوضہ مغربی کنارے کے حصوں کو ملانے کا کوئی موقع نظر نہیں آ رہا ہے اور بائیڈن کو بھی اسرائیلیوں کی جانب سے مزید آباد کاری پر اعتراض ہوگا۔لیکن جس یو ٹرن کا مطالبہ اس ہفتے ’فلسطین کے ایک عہدے دار‘ نے کیا، وہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ اب ’دو ریاستوں کے قیام‘ سے متعلق روایتی مذاکرات ہوں گے، لیکن اسرائیل فلسطین کے امن عمل میں زیادہ پیشرفت کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔اس ساری صورتحال میں پاکستان مطمئن نظر آرہا ہے کیونکہ امریکہ کو افغانستان میں عزت بچانے کےلئے پاکستان کی ضرورت ہوگی اور وہ پاکستان کے بغیر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکے گااسطرح افغانستان جو امریکہ پر اب تک معاشی بوجھ کا ڈراونا خواب بن چکا ہے سے جان چھڑانے کے چکر میں ہے لیکن افغانستان کےوار لارڈ نے امریکی مفادات کو اتنی سختی سے جکڑ رکھا ہے کہ وہ امریکہ کو اتنی جلدی بھاگنے نہیں دیں گے،پاکستان افغانستان کے بارے جوبائیڈن بھی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی پر ہی عملدرآمد کریں گے۔

|Pak Destiny|

One Response

  1. Saeedullah Khan Reply

Leave a Reply