آخر کب انڈیا اور پاکستان یورپ سے سبق سیکھیں گے؟

Will India, Pakistan learn from Europe,narendra modi,imran khan,europe logo

– ڈاکٹر عامر لاھوری –

یورپ والوں نے”آخرکار” دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں مروا کر یہ بات جانی و سیکھی کہ جنگوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور اب اتنا سُدھر گئے ہیں کہ یورپی یونین و یورو تک۔کیا انڈیا و پاکستان کروڑوں مروائے بغیر یہ سیکھ جائیں گے؟ملین ڈالر کوئسچن ہے۔فی الحال جنگ کے کوئی آثار نہیں کیونکہ جنگ میں انڈیا کا نقصان زیادہ ہو گا۔سرجیکل سٹرائیکس بھی بہت زیادہ مشکل ہیں کیونکہ ادھر بھی کئی پاگل و بھرے بیٹھے ہیں جو ردعمل میں انڈیا کو زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔تو پھر انڈینز کیا کریں گے؟رولا پا سکتے ہیں اور پا رہے ہیں۔پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت و تعلقات ختم کر رہے ہیں۔اس سے بھی پاکستان کو کوئی خاص acute فرق نہیں پڑتا۔انڈیا کو تجارت میں بڑا ملک ہونے کی وجہ سے زیادہ فائدہ ہے۔فنکار ہمارے پہلے ہی وہاں جانا بند ہو چکے۔کرکٹ پہلے ہی ہمارے ملک میں نہیں ہو رہی۔انڈو و پاک کے میچز بھی نہیں ہو رہے۔انڈیا کا فلم مت بھیجنے کا نقصان بھی انڈیا کو زیادہ ہے۔یہاں قوم پہلے ہی نیٹ وغیرہ کے چور راستوں وغیرہ سے فلم دیکھ لیتی ہے۔ویسے DDLG ٹائپ فلمیں بھی دیکھنے کے قابل؟حل کیا ہے؟حل ہمیشہ سے دو ہی ہوتے ہیں۔
یاں تو بڑا فریق خود کو قابل ذکر نقصان پہنچائے بغیر دوسرے ملک پہ حملہ کر دیتا ہے۔جیسے امریکہ ویت نام و افغانستان پہ۔مگر ایٹ دا اینڈ آف دا ڈے آپ کو وہاں کے لوگوں سے مذاکرات کر کے سپیس دینی پڑتی ہے کیونکہ سو فیصد دشمن کا صفایا اب ممکن نہیں رہا اور انڈیا اتنے جوگا ہے نہیں۔دعوے جتنے مرضی کر لے لیکن غربت بہت ہے اور جنگ بڑے خرچے والا کام ہے۔اتنے پیسے نہیں ہیں انڈیا کے پاس۔
دوسرا حل ہمیشہ بڑی پارٹی کو زیادہ کنسیشنز دے کر چھوٹی مگر تنگ کرنے والی پارٹی کو اکاموڈیٹ کرنا پڑتا ہے۔یہ انڈیا کرنا نہیں چاہتا یا انڈیا کے فیصلہ سازوں کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔وٹ ایور دا ریزن؟ویسے یہ اصول پاکستان کے اندر بھی اپلائی ہوتا ہے۔جب تک پاکستانی کی سب سے بڑی “سیاسی” پارٹی خود اپنی پاورز سویلینز کو نہیں دے گی تب تک رولے ٹو بی کنٹینیوڈ ہیں۔
ذاتی طور پہ مجھے جنرلز کی کئی پالیسیز سے اصولی اختلاف تھا اور ہے لیکن اگر انڈیا نے خدانخواستہ جنگ شروع کی تو میں انشاللہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس آ کر فوج میں رضاکارانہ طور مطلب بغیر تنخواہ کے اپنی خدمات پیش کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اپنی ڈیوٹی وار زون میں لگواؤں۔وقت آنے پہ ہم سویلنز کی بڑی تعداد خود کو زیادہ محب الوطن ثابت کر کے دکھائیں گے۔اگر ضرورت پڑی تو ہم سویلنز کی بڑی تعداد فوج میں بھرتی ہونے کو بھی تیار ہو گی۔آپس میں ہم ایک دوسرے سے جتنا مرضی کُتیوں کُتی ہوں لیکن جو ملک پہ حملہ آور ہوا اودی فیر خیر نہیں۔پہلے ہی عوام کترینہ کیف و انوشکا شرما عرف ببون دی ٹوئی تے تتی ہوئی بیٹھی اے۔پاکستان تو پہلے ہی خیرات امداد قرضوں و انٹرنل اکانومی و تھوڑی سی برآمدات وغیرہ پہ چل رہا ہے۔کتنے سال ہو گئے ہلکی پھلکی وار ٹائپ صورتحال میں live کرتے ہوئے ہمارے ملک و شہریوں کو۔بےشک نقصان تو خدانخواستہ ہمارا بھی ہو گا لیکن انڈیا زیادہ بھگتے گا۔انڈیا کے فیصلہ ساز اگر سیانے ہیں تو اپنی مونچھ تھوڑی نیچے کر کے پاکستان سے بات چیت کریں۔اس میں ان دا لانگ رن انڈیا کو زیادہ فائدہ ہو گا۔

سچ تو یہ ہے کہ انڈیا و پاکستان والوں نے جنگ ابھی تک بھگتی ہی نہیں ہے اور اسی لئے آئے روز جنگ جنگ کھیلتے رہتے ہیں۔جنگ تو کئی سالوں،کروڑوں کی موت،بھوک قحط افلاس درندگی وغیرہ کا نام ہے۔پینسٹھ و اکہتر و کارگل کو آپ بڑی جھڑپیں کہہ سکتے ہیں جنگ نہیں۔جنگیں جاپان و یورپ نے بھگتائی ہیں تو اب وہ جنگ کے نام سے بھی دور بھاگتے ہیں۔منٹوں کے اندر دو شہر تباہ ہوئے تھے۔لاکھوں نہتے لوگ بیٹھے بیٹھے ایسے ختم ہوئے کہ دفنانے کے لئے کچھ بھی باقی ناں رہا۔ہمارے سیاستدانوں کا آئی کیو لیول دیکھو میڈیا پہ سرعام بیٹھے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بم ہم نے شبرات پہ چلانے کے لئے تو نہیں بنایا۔
انڈیا کی غلط فہمی ہے کہ رولا پا پا کر وہ باقی دنیا سے بھی پاکستان کا ٹوٹل بائیکاٹ کروا سکتا ہے۔پاکستان سے بنا کر رکھنا،پاکستان سے بزنس لینا اور پاکستان سے اپنے کام نکلوانا بہت سارے ممالک کی مجبوری و ضرورت ہے۔ٹوٹل بائیکاٹ پاکستان کا ممکن نہیں ہے باقی زبانی کلامی۔۔۔۔۔۔۔
پھر دوبارہ کہ انڈیا پاکستان کو آخرکار ایک دن بالغ بچوں کی طرح اپنے مسائل آپس میں مل بیٹھ کر حل کرنے پڑیں گے اور کوئی آپشن نہیں ہے۔
  Pak Destiny

Leave a Reply