آئی ایم ایف نے پاکستان سے حساس اداروں اور ان کے اعلی افسران کے اثاثوں کا ریکارڈ طلب کر لیا

imf wants record and access to pakistni officers secrect records

باجوہ رجیم چینج کے بھیانک اثرات آنا شروع ہو گئے

چین عرب ممالک بھی پاکستان کا ساتھ چھوڑ کے آئی ایم ایف کےساتھ کھڑے ہوگئے

ایٹمی قوت کا حامل ملک سیاسی معاشی بحرانوں کے باعث زوال کی طرف گامزن

سابق جرنیل باجوہ نے اکثریتی حکومتی کو ختم کرکے اقتدار اقلیتی پارٹیوں کو دیکر ملک کی تباہی کی بنیاد رکھی

لاہور – ناظم ملک
پاکستان میں عالمی سازش کے تحت باجوہ رجیم چینج کے بھیانک اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس سے ملکی سلامتی دفاع سیکورٹی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں،ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضہ دینے کے عوض سیکورٹی دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے اعلی افسران کے اندرون و بیرون ملک اثاثوں کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور اسکےعلاوہ سویلین کے بجٹ سے حساس اداروں کا 500 ارب روپے پینشن کا کھاتہ واپس اداروں کے بجٹ میں ڈالنے کی کڑی شرائط عائد کر دی ہیں،بین القوامی سازش کے تحت آئی ایم ایف نے پاکستان کے حساس اداروں کو کمزور کرنے اور اسکی قیادت کو زبردستی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا ہے، سیاسی معاشی آئینی طور پر زوال پذیر ملک کے دیرینہ دوست چین اور عرب ممالک جن کے پاکستان کے ساتھ دفاعی نوعیت کے تعلقات ہیں وہ بھی پاکستان کا ساتھ چھوڑ کے آئی ایم ایف کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں،

پہلے سے ہی عالمی سطح پر تنہائی کا شکار، دہشتگردی، کرپشن،لوٹ مار اندرونی سیاسی معاشی دیوالیہ کے قریب ملک،پاکستان دشمن قوتیں جو دنیا کی بہترین جذبہ شہادت سے سرشار پاک افواج اور اس کی ایٹمی قوت سے خائف تھیں نے بلاآخر پاکستان کے خلاف آئہ ایم ایف کو تباہ کن ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے،پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے ناپاک منصوبوں سے لیس دشمن قوتیں جو کام پچھلے 75 سال میں نہیں کر سکیں وہ کام ہمارے کرپٹ سیاستدانوں اور سابق جرنیلوں نے ملک لوٹ کے کر دیکھایا جس کے باعث آئی ایم ایف پاکستان کو اپنی سیکورٹی اور دفاع پر کمپرومائز کرنے پر مجبور کر رہا ہے،سیاسی عسکری خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاآخر افغانستان،ایران عراق مصر شام لیبیا کے بعد ہماری باری آگئی ہے اور پاکستان کو برباد کرنے کی عالمی سازش نے زور پکڑ لیا ہے،ان ماہرین کے مطابق امریکی بھارتی اور اسرائیلی گٹھ جوڑ سے پاکستان کو دہشتگردی اور معاشی طور پر کمزور کر کے اس قدر لاغر اور مجبور کر دیا گیا ہے کہ اس کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کےلئے اپنی سلامتی خود مختاری بھی داو پر لگانے پر مجبور کیا جارہا ہے،پاکستان مخالف قوتوں نے آئی ایم ایف کے شکنجے کے ذریعے پاکستان میں بھوک ننگ غربت بےروزگاری تنگدستی مفلسی محتاجی کو بڑھا کر اور سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ہاتھوں رجیم چینج کے ذریعے اکثریتی پارٹی پی ٹی آئی عمران خان کو اقتدار سے محروم کر کے کرپشن کیسز میں سزا یافتہ نواز زرداری شہباز مولوی فضل الرحمان پر مشتمل اقلیتی پارٹیوں کی قیادت کو اقتدار سونپ کر ملک میں سیاسی خلفشار آنار کی ،عوام اور حساس اداروں کے درمیان اتنی خلیج پیدا کر دی ہے کہ جس سے کسی بھی وقت ملک کے اندر خانہ جنگی شروع ہو سکتی،باجوہ رجیم چینج کے ذریعے پاکستان پر مسلط کی گئی شہباز حکومت جس کی توجہ ملک کو دیوالیہ پن سے نکالنے کی بجائے صرف سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی طرف زیادہ ہے نے نئی فوجی قیادت کےلئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں نئے آرمی چیف جن کی توجہ ملکی دفاع اور دہشتگردی کے خاتمے کی طرف مرکوز ہے کو بھی یہ حکومت اپنے اقدامات سے اپنے ساتھ جوڑ کر متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے دن بدن ملک میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے،جب ایک طرف عالمی سازش سے آئی ایم ایف پاکستان کو اپنی سلامتی دفاع پر کمپرومائز کرنے پر مجبور کر رہا ہے وہاں اس مشکل اور امتحان کی گھڑی میں پاکستان کے انتہائی قابل اعتبار دوست چین اور عرب ممالک جن کے ہمارے ساتھ دفاعی مفادات جڑے ہیں وہ بھی اس بڑے وقت میں پاکستان کو۔چھوڑ کے آئی ایم ایف کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں،

ایف بی آر ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے گریڈ 17 سے 22 تک کے اعلی حساس اداروں، بیوروکریسی و دیگر سرکاری افسران کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں۔تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم نے تیسرے روز بھی پاکستانی حکام کے ساتھ تکنیکی سطح کے مذاکرات جاری رکھے اور تیسرے روز پاور سیکٹر‘ایف بی آر کےٹیکس ریونیواور مالیاتی شعبے سے متعلق امورکوزیرغور لایا گیا ،آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو ٹیکس ریونیواور نان ٹیکس ریونیو کے حوالے سے پائیدار ، موثراور خاطر خواہ اقدامات کرنے کا کہا ہےتاکہ رواں مالی سال کےلیے 600ارب روپے کے ٹیکس ریونیو میں فرق کو پورا کیا جاسکے، آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس ریونیو ہدف میں اضافے کا بھی کہا ہے۔حکومت پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی موجودہ زیادہ سے زیادہ حد 50روپے فی لٹر میں 20سے 30روپے فی لٹر اضافے کے ساتھ اس کو 70سے 80روپے فی لٹر کرنے اور پیٹرولیم مصنوعات پر 17فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہےتاکہ پیٹرولیم لیوی کے ہدف کو حاصل کیاجاسکے‘ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ایک مرتبہ مالیاتی فریم ورک کو حتمی شکل دینے کی صورت میں سیلاب کے اخراجات کو ایڈجسٹ کرنے کےلیے تیار ہے، تاہم اس کاانحصار اس بات پر ہےکہ سیلاب کے حوالے سے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات پر کس قدر رقم خرچ ہوتی ہےخاص طور پر بی آئی ایس پی پروگرام کےذریعےآنیوالے اخراجات ، ایف بی آر کی ٹیم نے آئی ایم ایف حکام کو یقین دہانی کرائی ہےکہ وہ اس سال کا ریونیو ہدف 7470ارب روپے حاصل کر لیں گے، ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر کے حوالے سے بجلی کی سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ڈسکوز کے 100 فیصد بل وصولی میں ناکامی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ رواں مالی سال کے سات ماہ میں ٹیکس ریونیو کے ہدف میں 220ارب روپے کے شارٹ فال پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان رواں مالی سال کا 7470ارب روپے کا ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل کرے اور ٹیکس بیس میں اضافے کےلیے اضافی اقدامات کیے جائیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے حکومت بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنائے بغیر گردشی قرضے کا خاتمہ ممکن نہیں۔ 100 فیصد بل وصولی کے بغیر پاور سیکٹر کا گردشی قرض ختم نہیں ہو سکتا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے 3 ڈسکوز کے علاوہ دیگر تمام ڈسکوز کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان کو ڈسکوز کی طرف سے بجلی بل وصولی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، آئی ایم ایف نے گردشی قرض مینجمنٹ پلان کے اہداف، بجلی ٹیرف میں سبسڈی ختم کرنے اور صنعتی شعبے کی ٹیرف سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے،ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے مابین کرپشن کی روک تھام اورمؤثر احتساب کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ، آئی ایم ایف نے کرپشن کے خاتمے کےلیے ٹاسک فورس کے قیام سے متعلق وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ آئی ایم ایف نے سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کے لئے اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ ذرائع ایف بی آر کے مطابق آئی ایم ایف نے بیورکریسی کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات مانگ لیں، بیوروکریسی کے بیرون ملک منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ سامنے رکھا گیا ہے، شفافیت اور احتساب کے لئے الیکٹرانک ایسٹ ڈیکلریشن سسٹم قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔مزید برآں بینک میں اکائونٹس کھلوانے سے پہلے بیورکریسی کے اثاثے چیک کیے جائیں گے، بیوروکریسی کے اکائونٹس کھولنے کے لئے بینک ایف بی آر سے معلومات لے سکیں گے، بینک اکانٹس کھولنے کے لئے 17 سے 22 گریڈ کے افسران کو تمام معلومات دینا ہوں گی۔

زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا تسلسل برقرار‘10 سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ‘ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 59 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی کمی سے 8 ارب 74 کروڑ 17 لاکھ ڈالر رہ گئے ‘ اسٹیٹ بینک کے مطابق 27جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے کے اختتام پر غیر ملکی ادائیگیوں کے باعث زرمبالہ کے مجموعی ذخائر مزید کم ہوگئے ہیں‘اب اسٹیٹ بینک کے پاس 3ارب 8 کروڑ 62 لاکھ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5ارب 65 کروڑ 55 لاکھ ڈالر ہیں.اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 3.1 ارب ڈالر رہ گئے جو صرف 18 دنوں کی درآمدات کیلیے کافی ہیں۔پاکستان کی مالی مشکلات بدستور برقرار ہیں اور ایسے میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی طرف سے جنرل سیلز ٹیکس کو 17 سے 18 فی صد کرنے کی سفارش سامنے آئی ہے جس سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات اسلام آباد میں شروع ہو چکے ہیں جو نو فروری تک جاری رہیں گے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرض کی قسط کو روک رکھا ہے اور حکومت سے ٹیکس اکھٹا کرنے کے حوالے سے سخت مطالبات رکھے ہیں جن پر گفت و شنید اب جاری ہے۔ تک جاری رہیں گے۔پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں معطل ہو گیا تھا جس کی وجہ پاکستان کی جانب سے اس پروگرام سے منسلک شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کو قرار دیا گیا۔

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کے معطل ہونے سے جہاں ایک جانب قرضے کی قسط رُک گئی تو دوسری جانب دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے قرض اور امداد کی آمد کا سلسلہ بھی رُک گیا۔چار مہینے کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کا آغاز تو ہو گیا تاہم اس پروگرام سے جڑی ہوئی شرائط پر پاکستان کی جانب سے عمل درآمد کی صورت میں ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو جنوری کے مہینے میں 27.6 فیصد کی شرح سے بڑھی۔ یہ شرح ملک میں 47 سالوں میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح ہے

‘Harsh’ IMF conditions alarm those at the helm یہ بھی پڑھیے

[Pak Destiny]

Leave a Reply