By Prof A Majeed Chaudhry
Justice Azmat Saeed report on Broadsheet is not surprising at all.
This blessed and unfortunate country is riddled with dishonest pursuits virtually in every sphere of life and all the systems are corrupted to the core.
Honesty;unfortunately has never been our way of life. We are blessed to be Muslims. The core values of Islam have not touched most of us. Honest upright people are considered as abnormal.
Second richest country from natural resources point of view has gone to dogs. Justice is delayed and very expensive and not meant for poor people.
I feel all of us have played a role in this downward slide. Imagine honest people who want to do something for this country feel helpless even at the top most level.
We can only pray under the circumstances. At least at our personal level we can play our role wherever we are and whatever role we have in this country. This country gave us name,fame and what not. We have miserably failed to pay back. Almighty have mercy on us. — PAK DESTINY
براڈ شیٹ کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اس کے ساتھ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سوا متعلقہ حکومتی اداروں میں سے کسی نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد براڈ شیٹ کمیشن کی رپورٹ پبلک کردی گئی، جس کی کاپی جیو نیوز نے حاصل کرلی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیوروکریسی نے ریکارڈ چھپانے اور گم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، پاکستان لندن مشن سمیت براڈشیٹ کا ریکارڈ تقریباً ہر جگہ سے غائب تھا۔ اس میں کہا گیا کہ کمیشن کے سربراہ نے طارق فواد اور کاوے موسوی کا بیان ریکارڈ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ براڈ شیٹ انکوائری کمیشن کی تحقیقات مکمل اس میں بتایا گیا کہ نیب کے سوا متعلقہ حکومتی اداروں میں سے کسی نے کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسٹ ریکوری معاہدہ حکومتی اداروں کا بین الاقوامی قانون نہ سمجھنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رپورٹ کے مطابق کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کمیشن کے ٹی او آرز میں شامل نہیں ہے۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ حکومت چاہے تو کاووے موسوی کے الزامات کی تحقیقات کرواسکتی ہے۔ نیب اور براڈ شیٹ معاہدہ کے مرکزی کردار طارق فواد ملک کمیشن میں پیش ہونے کیلئے تیار کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ر) عظمت سعید نے رپورٹ میں نوٹ لکھا کہ مارگلہ کے دامن میں رپورٹ لکھتے وقت گیدڑوں کی موجودگی بھی ہوتی تھی، لیکن گیدڑ بھبھبکیاں انہیں کام کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ براڈشیٹ کو ادائیگی کا معاہدہ 22 لاکھ ڈالر میں کیا گیا تھا، احمر بلال صوفی نے اسوقت کے براڈشیٹ کے چیئرمین جیری جیمز سے رابطہ کیا تھا، جیری جیمز جس سے پہلا معاہدہ کیا گیا اس کا براڈشیٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ کمیشن نے رپورٹ میں کہا کہ اُس وقت کے نیب چیئرمین نوید احسان بھی اس معاہدہ میں شامل تھے۔ براڈ شیٹ کمیشن زرداری کے سوئس مقدمات سامنے لے آیا تاہم رپورٹ میں نوید احسان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین نیب نے بیان دیا تھا کہ احمر بلال نے جیری جیمز کے ساتھ معاہدے سے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق نیب کے افسر حسن ثاقب شیخ بھی معاہدے کے ساتھ جڑے تھے۔ اس میں بتایا گیا کہ پہلا سیٹلمنٹ معاہدہ براڈشیٹ ایل ایل سی جبرالٹر کے ساتھ ہوا تھا، جبرالٹر نام کی ایسی کوئی کمپنی نہیں تھی جس کے ساتھ پاکستان نے کبھی معاہدہ کیا ہو۔ براڈ شیٹ کمیشن نے جج کلیم خان جو اس وقت وزارتِ قانون میں تھے، کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دی
It is so unfortunate that even the most energetic and upright Pakistanis are compelled to act at lowest level of eeman; just hate the evil in heart. No one can break this network of evil doers.
May Allah protect our beloved country and strengthen our eeman.