اختر مینگل پہلاہ قطرہ اپوزیشن جماعتیں حکومت گراؤ کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اکٹھی ہو گیئں

opposition plan topple government akhtar mengal first drop

– لاہور ۔۔۔ ناظم ملک –

* اپوزیشن جماعتیں ایمپائر کی انگلی کے اشارے کی منتظر

* ترین شہباز پرویز * ملاقات کا اثرات آنا شروع ترین کی نواز سے لندن میں میں بھی ملاقات متوقع

* اپوزیشن قیادت کے درمیان گلے شکوے اور اگلے اقتدار کا فارمولہ پر گفتگو

* اسلام آباد میں نمبرز گیم کا کھیل شروع مرکز اور پنجاب سے 50 ارکان واپس اپنی جماعتوں میں آنے کو تیار

حکومت کےناراض اتحادی اختر مینگل کی طرف سے چھ ووٹوں پر کھڑی “عمرانی حکومت” کا ساتھ چھوڑنے کےاعلان نے عمران کے پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی اور دن میں تارے دیکھا دئے ہیں،گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق” ترین پرویز شہباز ” ملاقات کے اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں،

اپوزیشن نے عمرانی حکومت کے خاتمے کےلئے اسلام آباد میں نمبرز گیم کی ایک نئی بساط بچھا دی ہے جسے کامیاب بنانے کےلئے حکومت میں بیٹھے آٹا چینی پٹرول مافیا نے احتساب سے بچنے کےلئے کامیاب کرانے کی حامی بھی بھر ی ہے،جواب میں حکومت کا ” سب کچھ دو اختر کو مناو “کا مشن شروع کر دیا ہے،باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ اختر مینگل کا حکومت چھوڑنے کا اعلان یکدم نہیں بلکہ اس کے پیچھے نواز شہباز چوہدری پرویز زرداری کی پلاننگ موجود ہے،

عمران کے احتساب سے نالاں تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں عمران حکومت کو گراو کے ون پوائینٹ ایجنڈے پر اکٹھی ہو گئی ہیں اور سیاسی تاجروں نے تبدیلی کےلئے نوٹوں سے بوریاں بھر کے تیار کر لی ہیں،ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت گرانے کے لئے درکار نمبرز کا مسلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ حکومت کے اندر سے ہی آدھے لوگ واپس اپنی جماعتوں میں آنے کو تیار ہیں،

اسوقت اپوزیشن جماعتوں کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولہ طے کیا جارہا ہے ن لیگ مرکز ق لیگ پنجاب مانگ رہی ہے اسطرح بلوچستان اختر مینگل مانگ رہے ہیں بتایا گیا ہے کہ تمام اہوزیشن جماعتوں کی قیادت کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطے ہیں جیسے ہی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تبدیلی کے کسی ایک نقطے پر اتفاق ہوتا ہے تو تبدیلی مشن شروع کر دیا جائے گا،اپوزیشن جماعتیں سینٹ الیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسر پر اعتبار کرنے اورعجلت میں دوبارہ بےعزتی نہیں کروانا چاہتیں،

وفاقی حکومت سے بی این پی کی علیحدگی کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے لئے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ(ق) جو کہ پہلے ہی تحفظات اور خدشات سے بھری پڑی ہے اس موقع پر اگر حکومت سے الگ ہو گئی تو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اختتام کو پہنچ سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم نے بھی تیاریاں شروع کر دیں ۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سے صرف اتحادی جماعتیں ہی ناراض نہیں ہیں بلکہ وفاق میں حکمران پارٹی کے اپنے ایک درجن اراکین اسمبلی اور پنجاب میں 20 اراکین اسمبلی بغاوت کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی نے بھی بلوچستان حکومت سے علیحدگی کے لئے سرجوڑ لئے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم ترین راہنما جہانگیر ترین ناراض ہو کر لندن روانگی کے بعد سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت مسلسل گرداب میں دھنستی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔ بی این پی مینگل گروپ نے گزشتہ روز دوٹوک علیحدگی کا اعلان کر کے حکومتی کشتی میں پہلا چھید کر دیا ہے جبکہ مسلم لیگ(ق) اور پی ٹی آئی کے درمیان پہلے ہی بہت دوریاں ہیں اور مسلم لیگ( ق) اس حوالے سے وزیر اعظم سے مل کر بھی اور ٹی وی چینلز پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اس لئے مقتدر قوت کا اشارہ ملتے ہی مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ(ن) سارے غم بھلا کر ایک ہو جائیں گے ۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ طاقت کے مرکز کی طرف سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سے ٹیلی فونک رابطے اور کئی غیر ملکی سفیروں کے اپوزیشن لیڈر سے رابطے تبدیلی کی ہواﺅں کا پتہ دے رہے ہیں ۔عوام کو پے درپے مہنگائی ،

بے روزگاری اور دباﺅں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت کسی ایک مسئلے سے نمٹنے میں بھی بری طرح ناکام رہی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نیا پاکستان بنانے کےلئے اپنے 23 سالہ وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل کرنے میں ناکام رہے ۔ معیشت کی بہتری کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے وزیر اعظم کی بھرپور معاونت کی لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم نے معیشت کو سنبھال سکے اور نہ ہی عوام کی زندگی میں بہتری لا سکے ۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ،

بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت اب صرف ” ایمپائر “ کی خاموشی تک قائم ہیں ۰۔ جیسے ہی ”ایمپائر “ نے اتحادی پارٹیوں کو آزادی کا اشارہ کر دیا تو تبدیلی آ جائے گی ۔ البتہ قسمت کے دھنی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اتحادی پارٹیوں سے مزید کچھ وقت لے سکتے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ لندن میں جہانگیر ترین اور میاں نواز شریف کی ملاقات بھی متوقع ہے جو کہ پی ٹی آئی کے لئے ایک خوفناک پیغام ہو گا ۔

|Pak Destiny|

12 Comments

  1. Shehzad A Dar Reply
  2. Umar Khitab Khan Reply
  3. Bakhtiar Ahmed Reply
  4. Muhammad Yousaf Virk Reply
  5. Naveed Ijaz Butt Reply
  6. Qayum Tahir Reply
  7. Maher Irfan Reply
  8. Muhammad Sharif Reply
  9. Qaisar Aslam Reply
  10. Anonymous Reply
  11. Muhammad Jamil Qamar Reply
  12. Mehmood Ahmad Reply

Leave a Reply