By Saima Junaid
بچوں کے معروف ادیب محمد یونس حسرتؔ
(پیدائش 13 اپریل 1933ء- وفات 12 ستمبر 1999ء)
ادبی دنیا میں ننکانہ صاحب کی پہچان بننے والے پروفیسر محمد یونس حسرت نے چھیاسٹھ سالہ زندگی میں ایک سو بیس سے زائد کتب تصنیف کیں۔ انہوں نے انگریزی، جاپانی اور چینی کہانیوں کے ساتھ ساتھ کلام اقبال، کلام بابا فرید گنج شکر اور کلام سلطان باہو کا بھی اُردو ترجمہ کیا۔ ساحر لدھیانوی، اکبر الہٰ آبادی، شکیل بدایونی کی کلیات مرتب کیں اور اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے پینسٹھ سے زائد کہانیاں اور ناول تخلیق کئے۔ مزاحیہ اور طنزیہ نظموں پر مشتمل ان کا مختصر شعری مجموعہ جنوری 1964 میں نشاط البیان کے نام سے شائع ہوا تھا۔
وہ سیارہ ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ سمیت کئی ادبی رسالوں کے لیے لکھتے رہے۔ سیارہ ڈائجسٹ کا فہمِ دین نمبر، قرآنی وظائف نمبر اور معجزات نمبر جیسے خاص شمارے ان ہی کے تخلیق کردہ ہیں۔ ان کی زیادہ تر کتب اقبال اکادمی، فیروز سنز، مقبول اکیڈمی، ہمدرد کتب خانہ اور شیخ غلام علی اینڈ سنز نے شائع کی ہیں۔
یونس حسرت 13 اپریل 1933 کو ریاست پٹیالہ کے گاؤں چوہلٹہ میں پیدا ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے ننکانہ صاحب میں آباد ہو گئے۔ انہوں نے 1954 میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی تاہم علم و ادب کی طرف رجحان کے باعث سائنس کا میدان چھوڑ کر ادبی رسالوں اور اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا۔
1960 میں انہیں محکمہ دیہی ترقی کے پندرہ روزہ رسالے ہم لوگ میں بطور نائب مدیر ملازمت مل گئی۔ یہاں انہیں صادق قریشی اور ناصر کاظمی جیسی ممتاز ادبی شخصیات کی صحبت اور رفاقت میسر آئی۔
1967 میں سیارہ ڈائجسٹ کے انعامی مقابلے میں ان کے لکھے افسانے راجاں کو تیرہ سو افسانوں میں سے اول آنے پر نہ صرف سالنامے میں شائع کیا گیا بلکہ تین سو روپے انعام بھی دیا گیا۔ اسی سال ایم اے اُردو کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اُردو کی ترویج کے لئے بنائے گئے ادارے مجلسِ زبانِ دفتری حکومت پاکستان سے منسلک ہو گئے۔ بعد ازاں انہوں نے بطور اُردو لیکچرار گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں ملازمت اختیار کر لی اور تصنیف و تالیف کا کام جاری رکھا۔1985 میں ان کا تبادلہ اپنے ہی شہر کے تعلیمی ادارے گورنمنٹ گورونانک ڈگری کالج ننکانہ صاحب ہوا جہاں سے وہ 1993 میں بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سنٹر نے بچوں کے لیے لکھے گئے ان کے ناول بھوت بنگلہ کی ڈرآمائی تشکیل کر کے تیرہ اقساط میں پیش کیا تھا۔ اس ڈرامے کی منفرد بات یہ ہے کہ اس میں کوئی نسوانی کردار نہیں تھا۔
یونس حسرت کے چار بیٹوں میں سے اویس احمد اور اشفاق احمد اپنے والد کی طرح علم و ادب سے ہی وابستہ ہیں۔اشفاق احمد آفاق انسائیکلو پیڈیا کے شعبہ ادب الاطفال میں بطور سینئر مینجر فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ:
‘میرے والد کو اپنے شہر سے انسیت تھی اور وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے۔ لوگ انہیں کہتے تھے کہ اگر آپ لاہور میں مقیم ہو جائیں تو آپ کو ادبی دنیا میں نمایاں مقام مل سکتا ہے لیکن وہ نمود و نمائش اور شہرت کے متلاشی نہیں تھے۔‘ان کا کہنا تھا کہ یونس حسرت بچوں کے ادب کو بہت اہمیت دیتے تھے اس لئے انہوں نے سب سے زیادہ کتب بچوں کے لئے لکھیں۔’ہمارے معاشرے میں اب بچوں کا ادب تو دور کی بات ہے ادب کو ہی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔ یوں بھی بچوں کے ادب میں معاشی اور سماجی فوائد نہیں ہیں اس لیے بڑے ادیب بچوں کے لئے لکھنے کو وقت کا ضیائع سمجھتے ہیں۔‘
گورنمنٹ گورونانک پوسٹ گریجوایٹ کالج نے ننکانہ کے اس سپوت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 2014 میں کالج کے رسالے مضراب کا پروفیسر محمد یونس حسرت نمبر شائع کیا تھا۔ سرگودھا یونیورسٹی اور رفاہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایم فل کے دو طلبہ بھی یونس حسرت کی شخصیت اور ادبی خدمات پر الگ الگ تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔
ان کا انتقال 12 ستمبر 1999 کو عارضہ قلب کے باعث ہوا تھا جبکہ ان کی آخری آرام گاہ قبرستان مال منڈی ننکانہ میں ہے۔
محمد یونس حسرت کے شاگرد اور گورنمنٹ گورونانک پوسٹ گریجوایٹ کالج ننکانہ میں اردو کے استاد غلام مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ ’حسرت صاحب ابجد کے ماہر اور تاریخ بارے یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ جتنی محنت سے انہوں نے بچوں کا ادب تخلیق کیا ایسی لگن اور شوق اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ یونس حسرت خود تو چلے گئے ہیں لیکن اپنے پیچھے کتب کی صورت میں علم و ادب کا ایسا ذخیرہ چھوڑ کر گئے ہیں جس سے آئندہ نسلیں بھی فیض پاتی رہیں گی۔
پسِ تحریر : علم ہوا کہ یونس حسرت ابو مرحوم کے دوست رانا الیاس خاں کے برادرِ بزرگ تھے