رزاق داود نیب کے شکنجے میں پابندی کے باوجود بھارت سے تجارت اور شوگر سکینڈل پر تحقیقات کرئے گا

– لاھور -ناظم ملک –

*رزاق داود نے حکومت کو بتائے بغیر بھارت سے ادویات منگوایئں اور ماسک سینیٹائزر بھیجے تھے

*وزیراعظم شہزاد اکبر کی کارگردگی پر سخت ناراض

وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت رزاق داود بھی نیب کے راڈار پر آگئے ہیں،پابندی کے باوجود بھارت سے چینی اور ادویات درامد کرنے پر نیب ان سے تحقیقات کرئے گی،ذرائع نے بتایا ہے کہ نیب ایف آئی اے کی رپورٹ بھارت کےساتھ تجارت اور شوگر سکینڈل میں کردار پر دونوں کیسز میں مشیر تجارت عبدالرزاق داﺅد کیخلاف تحقیقات کرئے گا،

وزیراعظم نے بھارت کے ساتھ تجارت کے معاملے کی تحقیقات کا ذمہ داری وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کے سپرد کی گئی تھی جن کو دو ہفتے کے اندر اس معاملے پر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم وہ مقررہ مدت کےدوران رپورٹ جمع نہ کرا سکے جس پر وزیراعظم نے ناراضی کا اظہار بھی کیا ہے

دوسری جانب وزارت صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب ے سے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت پر پابندی کے باوجود بھارت سے جان بچانے والی ادویات اور خام مال منگوایا گیا اور ملکی ضروریات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پاکستان سے ماسک، گلوز، سینی ٹائزرز اور دیگر سامان بھارت بھجوایا گیا، اس معاملے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کا بھی کردار ہے جنہوں نے بھارت سے سامان منگوانے کے لئے وزارت تجارت کو درخواست دی جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے مشیر تجارت عبد الرزاق داﺅد نے ایس آر او جاری کرائے

میڈیا رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم نے اس معاملے کا نوٹس لیا اور معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کو اس معاملے کی تحقیقات کی ہدایات جاری کیں اور دو ہفتے کے اندر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تاہم چار ہفتے گزرنے کے باوجود شہزاد اکبر نے اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہ کی جس پر وزیراعظم نے اظہار ناراضی بھی کیا ہے۔

واضح رہے کہ مشیر تجارت عبدالرزاق داﺅد کا نام شوگر سیکینڈل میں بھی سامنے آیا ہے، اور ایف آ ئی اے کی تحقیقاتی ٹیم نے چینی کی بر آمد کے حوالے سے انکی سفارشات پر سوالات اٹھائے ہیں اور اب یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیا گیا ہے جو اس کی تحقیقات کر رہاہے۔

4 Comments

  1. Farooq Shah Reply
  2. Umar Afridi Reply
  3. Khalid Asghar Reply
  4. Rana Shahid Ali Reply

Leave a Reply