کمزور پاکستانی حکومت بمقابلہ طاقتور انتہا پسند

– ڈاکٹر عامر لاھوری –

فیصلہ پسند نہیں آیا۔ٹھیک نہیں لگا۔مناسب نہیں لگا۔غلط لگا تو اس پہ احتجاج کرنے کا حق ہے۔جمہوریت میں یہ حق دیا جاتا ہے۔مسئلہ اُس وقت ہوتا ہے جب آپ عوام کو تکلیف دینا شروع کر دیتے ہیں۔جگہ جگہ سڑکیں بلاک کرنا،توڑ پھوڑ کرنا،آگ لگانا،آتی جاتی گاڑیوں پہ لاٹھیاں مارنا احتجاج نہیں لاقانونیت ہے۔ ایک ویڈیو بھی اس سلسلے میں گردش کر رہی ہے جس میں بس کو ناں رُکنے پہ فائرنگ کی گئی جس سے دو شہری جاں بحق ہو گئے ہیں؟

اناللہ و انا علیہ راجعون۔۔۔۔۔۔۔
معلوم نہیں اس ویڈیو کی حقیقت و تفصیل کیا ہے؟
اس لاقانونیت سے نمٹنا حکومت وقت پہ فرض ہوتا ہے۔آپ بطور عوام فوج کی پالیسیز پہ تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن آرمی چیف کے عقیدے پہ بات کرنا غلط ہے اور چیف کے ماتحتوں کو بغاوت کی ترغیب دینا غلط ہے۔ان لوگوں پہ اب کوئی ایکشن تو ہونا چاھیئے ورنہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ غصہ و ایکشن اُنہیں لوگوں پہ ہوتا ہے جو طاقتور نہیں ہیں مثلا بلاگرز،جیو و ڈان والے۔سی جے صاحب کی باتوں و پھرتیوں و چھاپوں پہ دو رائے ہو سکتی ہیں۔تنقید کی جا سکتی ہے لیکن سے جے صاحب اور اُن کے ساتھی ججز کو نعوذباللہ قتل کرنے پہ اُکسانا غلط ہے۔سی جے صاحب آئے روز سیاستدانوں و لوگوں کو کورٹ میں بلا کر سوالات بلکہ کئی مرتبہ تذلیل کر چکے ہیں۔گالیاں تو پہلے بھی دے چکے اور اب تو یہ لوگ قتل تک کی باتیں کر رہے ہیں۔ان پہ اگر سوموٹو نہیں لیا جا رہا تو تاثر تو یہی پھیلے گا کہ سی جے صاحب کا زور بھی صرف کمزوروں پہ چلتا ہے۔پچھلی حکومت کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور لگتا ہے یہ حکومت بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان لوگوں کو کیسے ھینڈل کیا جائے؟ان لوگوں کا عمران گورنمنٹ و پی ٹی آئی پہ غصہ نکالنا غلط ہے۔یہ بات اس حد تک کیوں پہنچ گئی؟شاید اس لئے پہنچ گئی کہ نوازشریف پہ جوتا،احسن اقبال پہ گولی و خواجہ آصف پہ سیاھی پھینکے جانے کو تمام سیاستدانوں نے مل کر غلط نہیں کہا۔وغیرہ وغیرہ۔شیخ رشید سمیت پی ٹی آئی کی بڑوں نے اس کارڈ کا استعمال کیا اور یہ کارڈ اب خواہ مخواہ میں ان کے اپنے گلے پڑ رہا ہے۔کاش ہمارے سیاستدانوں کو احساس ہو جائے کہ وہ سب کے سب “کمزور ٹارگٹ” ہیں۔کچھ باتوں پہ ان سب کو اتفاق کر لینا چاھیئے کیونکہ اتفاق میں ہی ان کی مضبوطی ہے۔اس کارڈ کو یہ تمام مل کر ہی ھینڈل کر سکتے ہیں۔اب ن والے چُپ ہیں اور جب اُن سے کہو کہ بھئی اب تو وقت ہے اس بات پہ بولو تو آگے سے جواب ملتا ہے کیا بولیں؟ہمارے گھروں پہ حملے اُس وقت بھی ہوئے تھے جب ہم سو کالڈ حکومت میں تھے اور اب تو ہمیں پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہے۔نوازشریف کو گھر میلاد اور وزیروں کو سبز عمامے باندھنے پڑے تھے۔
لیٹسٹ خبر یہ ہے کہ کل رات کو تقریبا ایک دو بجے رینجرز اسلام آباد احتجاجیوں کو صرف ششکا لگانے گئی اور رزلٹ یہ ملا کہ آگے سے گالیاں پڑی ہیں۔پھینٹی نہیں پڑی؟پڑی ہے جی رینجرز کی بجائے نہتے ڈان کے رپورٹر عمیر رانا کو۔وہی کمزور ٹارگٹ کو پھینٹو کیونکہ اس کے پاس جوابی وار کی طاقت نہیں ہوتی۔
|PakDestiny|

6 Comments

  1. Muhammad Shafeeq Reply
  2. Muhammad Ejaz Reply
  3. Tabi Shah Reply
  4. Muhammad Yousaf Reply
  5. Khalid Javid Reply
  6. Zulfiqar Ahmed Reply

Leave a Reply