‘Woman hunger’

 
By Dr. Amir Lahori

رات آپنے صحافی دوست کا فون آیا۔وہ مریم نوازشریف کی تقریر کی کوریج کر کے آ رہے تھے۔اُن کی سنائی روداد کو من و عن لگا رہا ہوں۔بس ذرا زیادہ ننگے الفاظ کو کپڑے پہنا دیئے ہیں۔

میں مریم کی تقریر سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔رش بس مناسب ہی تھا۔لوگ آ جا رہے تھے مگر جب مریم کے آنے کا اعلان ہوا تو مجمع کا بڑا حصہ سٹیج کی طرف بڑھنے لگا حتی کہ سکیورٹی والوں کو بلانا پڑا کہ جگہ خالی کراؤ۔آب یہ کوئی ینگ ڈاکٹرز کا مظاہرہ تو تھا نہیں کہ لاٹھی چارج کرا کے جگہ خالی کرائی جاتی۔پہلے لوگوں کو آرام سے کہا گیا۔پھر ھلکا پھلکا پُش کیا گیا اور پھر باقاعدہ دھکم پیل شروع ہو گئ۔عوام تو کسی صورت ہٹنے کو تیار نہ تھی۔آخرکار مریم کو لایا گیا لیکن اتنا رش اور دھکے تھے کہ مریم روسڑم تک بھی نہیں پہنچ سکی۔جہاں تھوڑی جگہ ملی وہیں ھاتھ میں مائیک پکڑ کر تقریر کرنا پڑی۔
ہم میڈیا والوں کو نسبتآ بہتر جگہ دی گئ تھی لیکن پیچھے سے ہر کچھ سیکنڈز کے بعد دھکے کا ریلا آتا تھا۔لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آپنے سے آگے والوں کو پیروں کے نیچے روند کر مریم کو جا کر پکڑ لیں۔مجھے ان کا جنون دیکھ کر یوں لگا کہ اگر انکو مریم تک پہنچنے دیا گیا تو مریم اور اُس کے اس پاس کھڑی عورتوں کو یہ لوگ چھیڑپھاڑ دیں گے۔اُن کا بس چلنے سے سکیورٹی والے بمشکل روک رہے تھے۔
بہت ہو گئ ڈیوٹی۔میں نے میڈیا کارڈ جیب میں رکھا اور لوگوں کے جذبات سمجھنے کی کوشش شروع کر دی۔

عوام تو کسی صورت ہٹنے کو تیار نہ تھی۔آخرکار مریم کو لایا گیا لیکن اتنا رش اور دھکے تھے کہ مریم روسڑم تک بھی نہیں پہنچ سکی۔جہاں تھوڑی جگہ ملی وہیں ھاتھ میں مائیک پکڑ کر تقریر کرنا پڑی۔

قریب کھڑے تقریبآ ستر سالہ باباجی سے پوچھا:تقریرسننے آئے ہیں؟
باباجی:تقریر میرا۔۔۔۔سننے آیا ہے۔میں تو مریم کو دیکھنے آیا ہوں۔
میں:لیگی نہیں ہو؟
باباجی:لیگی ہی ہوں۔مریم آپنی دھی رانی ہے پر دیکھ تو سہی سوھنی کتنی ہے؟
ساتھ کھڑے چاچاجی سے پوچھا:فیر ووٹ کس کو دینا ہے؟
چاچاجی:اس کو ہی دے دیں گے۔
میں:یہ نہیں اس کی والدہ الیکشن لڑ رہی ہے۔
چاچاجی:تو اس کی ماں کو دے دیں گے۔
ایک لڑکا جو بار بار سکیورٹی والوں کے دھکے کھا کر واپس آ رہا تھا سے پوچھا:بہت پسند ہے؟
لڑکا:معشوق ہے آپنی۔
میں:رات خوابوں میں بھی آتی ہو گی؟
لڑکا:بلکل
میں:ٹرک بھی اُلٹتا ہو گا۔
لڑکا:ٹرک تو جناب ہم جاگتے ہوئے مریم کے نام کا خود بھی اُلٹا لیتے ہیں۔
ایک اور لڑکا وہ بھی سکیورٹی والوں سے اُلجھ رہا تھا۔
میں:رھنے دے۔بس کر۔نہیں جانے دے رہے آگے۔کیا فائدہ؟خواہ مخواہ سکیورٹی والوں سے دھکے کھا رہا ہے۔
لڑکا:نئیں۔آج تے پ چ مریم نوں ہتھ لا کے ہی جانا ہے۔
اتنے میں ایک تیسرا لڑکا ان دونوں کی طرف آیا اور بولا:اوئے چھڈو ایدھروں۔اُدھر مریم کی بیٹی گاڑی میں بیٹھی ہے۔اُدھر چلتے ہیں۔شاید وہ گاڑی سے باہر نکل آئے۔

میری سیاسی لیڈرز،مذھبی رہنماؤں،دانشوروں،لبرلز،جنرلز وغیرہ سے غیرمؤدبانہ گزارش ہے کہ تم لوگوں کا امریکہ،انڈیا و آپس کا کُتی چیکا تو کبھی ختم نہیں ہونا۔گزارش ہے کہ آپس میں بیٹھ کر قوم کے اس مسئلے کا کوئی حل تو نکالو؟ان لوگوں کے اندر کا جانور اس حد تک پک گیا کہ ان کے ہاتھ خدانخواستہ کوئی عورت آ جائے تو یہ لوگ اُس کی بوٹی بوٹی کر دیں گے۔نوازشریف صاحب یہ تو آپ کی بیٹی و نواسی کو بھی نہیں بخش رہے۔خان صاحب آپ کی ورکر خواتین کا آپ سے کوئی رشتہ نہ سہی لیکن جب وہ جلسوں میں آتی ہیں تو وہ آپ کی مکمل ذمہ داری بن جاتی ہیں۔کیا آپ نے ابھی تک وہ ویڈیوز اور اُن لڑکیوں و عورتوں کی چیخ پکار نہیں سنی؟
لکھ لعنت اُس رولنگ کلاس پہ جو آپنی بیٹی و بہنوں کو جانوروں سے محفوظ نہ رکھ سکے۔در فٹے منہ اُس چ نظام کا جو آپنے لڑکوں کو جانور بنا چھوڑے۔بڑا فخر ہے زیادہ تر لوگوں کو اس بیمار معاشرے کی احمقانہ روایات پر۔جیتے رہو آپنی سٹوپڈ فینٹسی ورلڈ میں زندہ۔
یہ آگ تقریبآ ہر گھر پہنچ چکی ہے۔پاکستان میں شاید یا بہت ہی کم خواتین ایسی ہیں جو زندگی میں کم از کم ایک بار molest نہ ہوئی ہوں؟اچھا تو آپ کا خیال ہے کہ گھر بیٹھی خواتین و بچیاں molest نہیں ہوتیں؟
مائی فُٹ۔

5 Comments

  1. HM Reply
  2. Saamiya Rizvi Reply
  3. Abid Janjua Reply
  4. Afza Batool Reply
  5. Kashi Reply

Leave a Reply