سیاسی قیادت جنرل باجوہ کو 64 سال کی عمر تک آرمی چیف دیکھنے کی خواہاں

political command want to retain general bajwa until 64 years of age

– لاہور ۔ ناظم ملک –

* جنرل باجوہ کے کریڈٹ امریکی انخلا،کامیاب آپریشن ردالفساد،ملک سے دہشتگردی عسکریت پسندی کا خاتمہ

* جنرل باجوہ نے فوجی سفارتکاری کا تصور دیا جس کا ساری دنیا اعتراف کرتی ہے

* جمہوریت پسند جنرل باجوہ بیک وقت سیاسی قیادت صنعنتکاروں تاجروں مزدوروں کسانوں طلبہ سمیت ہر شعبے میں مقبول

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ملکی تاریخ کے وہ پہلے فوجی سربراہ ہیں جو بیک وقت فوجی،دفاعی و خارجہ امور سمیت معاشی صورتحال بہتر کرنے کے میدان میں کامیابی کے ساتھ نبردآزما ہیں،ساری دنیا ان کی فوجی سفارتکاری کی صلاحیتوں کا اعتراف کر چکی ہے،جنرل باجوہ نے جس طرح خطے کی گھمبیر خطرناک صورتحال میں ملک کی قیادت کی اس کی مثال پہلے نہیں ملتی،اسوقت جب امریکہ افغانستان سے 20 سال بعد اپنی شکست کے زخم چاٹتا واپسی کر رہا ہے وہیں پاکستان کے دشمنوں کی نظریں ان کی آئیندہ سال ریٹائرمنٹ پر لگی ہیں کہ کب ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ جنرل باجوہ رخصت ہوں تو وہ پاکستان کے خلاف اپنے وہ محاذ کھوسکیں جو جنرل باجوہ کی موجودگی میں کامیاب نہیں ہو سکتے،ملک کی ساری مدبر سیاسی قیادت جس میں حکومت اس کی حلیف اور اپوزیشن جماعتیں اپنی قومی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے دفاع قومی سلامتی پر نہ صرف یکسو ہیں بلکہ ملک کی حفاظت کےلئے فوج کے پیچھے کھڑی ہیں اور فوجی ادارے ہر بھرہور اعتماد رکھتی ہیں،ان حالات میں جب جنرل باجوہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ آرمی کی حیثیت سے اپنی موجودہ ٹرم پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوجایئں گے پر ملکی سیاسی قیادت سنجیدگی سے سوچ و بچار کر رہی ہیں،ملکی سیاسی قیادت اس سلسلے میں ایک دوسرے سے رابطوں میں بھی ہیں جس میں اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جنرل باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ کی 64 سال کی عمر پوری کر کے ریٹائر ہوں واضح رہے کہ جنرل باجوہ اگلے سال نومبر 2022 میں اپنی تین سالہ آرمی چیف کی حیثیت سے مدت پوری کر لیں گے لیکن آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے بعد کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت 64 سال کی عمر تک ہوگی لیکن اگلے سال اپنی تین سالہ مدت آرمی چیف مکمل کرنے کے بعد وہ 62 سال کے ہو جایئں گے جس کے بعد بھی ان کی ملازمت کے دو سال بچ جاتے ہیں ان حالات میں سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ جنرل باجوہ اپنی 64 سال کی عمر تک فوج کی قیادت کریں اور اس سلسلے میں ان جماعتوں کی قیادت اپنے ذرائع سے جنرل باجوہ پر اگلے سال ریٹائرمنٹ کے بعد مزید دو سال کی توسیع پر اپنے اعتماد کا اظہار کر کے گرین سگنل دے چکی ہیں،

واضح رہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے 29 نومبر 2019 کو ریٹائر ہونا تھا تاہم وزیراعظم عمران خان نے ان کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل ہی انھیں تین برس کے لیے توسیع دینے کا اعلان کیا تھا اب ان کی مدت ملازمت 64 سال کی عمر میں پوری ہوگی جس میں ابھی تین سال چار مہینے باقی ہیں،

اب ذرا جنرل باجوہ کی آرمی چیف کی حیثیت سے ملک کےکئے خدمات پر نظر ڈالتے ہیں۔۔

جنرل باجوہ سفارتکاری کے میدان میں

جنرل باجوہ کے دور میں ل’فوجی سفارتکاری‘ کا تصور سامنے آیا ہے جس سے ان کے غیر ملکی دوروں، پاکستان آئے غیر ملکی وفود سے ملاقاتوں اور خصوصاً جنرل باجوہ نے خطے کی سیاسی و دفاعی صورتحال میں چین روس ایران سعودی عرب،متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ریاستوں کے ساتھ سفارتکاری کے ذریعے اپنی قیادت کا لوہا منوایا خصوصا افغان طالبان اور امریکہ میں مذاکرات میں کردار کو باخوبی نبھایا جس سےامریکہ کو افغانستان سے نکلنے کےلئے محفوظ راستہ مکنا ممکن ہوا ،جنرل باجوہ نے اب تک کم وبیش ساری دنیا میں ایک جنرل کی حیثیت سے سفارتکاری کے میدان میں جھنڈے گاڑ چکے

جمہوری جنرل باجوہ

جنرل باجوہ کا شخصی تاثر آرمی چیف کے عہدے سے پہلے بھی کسی سخت گیر جرنیل کا نہیں رہا،وہ ہمیشہ ملک میں جمہوریت کے خواہاں رہے ہیں ک کے نازک سیاسی حالات میں انہوں نے جمہوریت کے حق میں ہی فیصلے کئے۔ وہ ہمیشہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے اور ملخ کی سیاسی قیادت کسی بھی مسلے پر ان کے ساتھ رابطوں میں نہیں ہچکچائی وہ حال ہی چند دن پہلے پارلیمنٹ گئے جہاں انہوں نے امریکی انخلا کے ضمن میں ملکی سلامتی کے حوالے سے انہوں نے ساری قیادت کو اعتماد میں لیا یہاں یہ بھی اہم نکتہ ہے کہ جنرل باجوہ کو قومی ترقیاتی کونسل کا حصہ بھی بنایا گیا جس کا مقصد ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔

باجوہ ڈاکٹرائن

آرمی چیف کی ہدایت پر ملک بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حتمی آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا۔

جنرل باجوہ کی سکیورٹی پالیسی کا منفرد پہلو یہ تھا کہ انھوں نے کارروائیوں کے ساتھ ساتھ شدت پسندوں سے مذاکرات بھی کیے۔

تحریک طالبان پاکستان، جیے سندھ قومی محاذ، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچ علیحدگی پسندوں اور پنجابی طالبان کے ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کو جنرل راحیل شریف کے دور میں دی گئی معافی کا سلسلہ جنرل باجوہ کے دور میں تکمیل کو پہنچا۔افغانستان سے متصل سرحد پر حفاظتی باڑ اور سرحدی قلعوں کی تعمیر سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی آئی۔ اس کے ساتھ بحالی اور تعمیر نو کے لیے سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں درجنوں ترقیاتی منصوبوں کو بھی مکمل کیا گیا اور قبائلی علاقوں امن قائم کرنے سمیت وہاں تعمیر نو اور روزگار خے بہترین مواقع پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا،جنرل باجوہ جہاں معمول میں اگلے محاذوں پر فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کےلئے ان کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہیں اگلے دن وہ دنیا کے کسی ملک ک کی سفارتکاری کر رہے ہوتے ہیں

جنرل قمر جاوید باجوہ کا فوجی سفر

جنرل قمر جاوید باجوہ نے 24 اکتوبر سنہ 1980 میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ کے مطابق انھیں بلوچ ریجمنٹ میں کمیشن ملا تھا۔

انھیں فوجی اعزاز نشان امتیاز (ملٹری) سے بھی نوازا جا چکا ہے۔وہ کینیڈا کی افواج کے کمانڈ اور سٹاف کالج، امریکہ کی نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی، مونٹیری (کیلیفورنیا) اور اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔وہ کوئٹہ، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور این ڈی یو اسلام آباد میں سکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹیکس میں انسٹرکٹر رہے ہیں۔وہ انفینٹری بریگیڈ کے بریگیڈ میجر اور راولپنڈی کور کے چیف آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں۔انھوں نے ایک انفینٹری بریگیڈ کے 16 بلوچ ریجمنٹ کو کمانڈ کیا ہے اور شمالی علاقہ جات کے کمانڈر ایف سی این اے کے جی او سی رہے ہیں۔انھوں نے کانگو میں پاکستانی دستے کی سربراہی بھی کی ہے۔ جب انھوں نے راولپنڈی کور کی کمان بھی سنبھالی ہے۔

|Pak Destiny|

Leave a Reply