قاضی فائز کیس،حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے ایف بی آر ریفری قرار

qazi faiz isa case governtment superme court fbr

– لاہور ۔۔۔ ناظم ملک –

**حکومت کیس ایف بی آر جانے پر خوش جیت کےلئے سو فیصد پراعتماد

**قاضی فیملی پر بار ثبوت آگیا لندن کی جائیداد پریشانی پیدا کر سکتی ہے

**سپریم کورٹ کے پاس اختیار نہیں تھا کہ ریفرنس کالعدم قرار دیتی اور ایف بی آر کو بھجواتی

**اصل کیس تو اب شروع۔ہوا ہے جج صاحب کی اہلیہ منی ٹریل نہ دےپایئں تو جوڈیشل کمیشن جج صاحب کو دوبارہ کیس میں شامل کر سکتا ہے

**کیس میں نیا موڑ آنےسے بہت سے لوگوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں، *اعتزاز احسن

**فیصلے میں ہے کہ ایف بی آر کی چھان بین میں جج صاحب کئ خلاف کوئی سوال بنتا ہےتو کونسل کو آگاہ کرئےمٹھائی بانٹنے والے وکلاء جلد پچھتایئں گے *افنان منور

سپریم کورٹ کی طرف سے اپنے برادر جج قاضی فائز عیس کے خلاف حکومتی ریفرنس کالعدم قرار دینے اور معاملہ مزید تفتیش کےلئے ایف بی آر کو بھجوانے کے فیصلہ پر قانونی ماہرین مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں اس حوالے سے ملک کے ممتاز سئینر قانون دان اعتزاز احسن نے اس نمائندے سے فیصلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار نہیں تھا کہ ریفرنس کالعدم قرار دیتی اور ایف بی آر کو بھجواتی یہ کس قانون کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آئی سپریم کورٹ کے پاس کسی قانون کے تحت کو ئی اختیار نہیں تا کہ وہ ریفرنس کالعدم قرار دیتی انہوں نے کہا کہ میری نظر میں اصل کیس تو اب شروع ہوا ہے جج صاحب کی اہلیہ ایف بی آر کو منی ٹریل نہ دےپایئں تو جوڈیشل کمیشن جج صاحب کو دوبارہ کیس میں شامل کر سکتا ہے کیونکہ بہرحال وہ اپنے خاندان کے اثاثوں کے جواب دہ ہیں،کیس میں نیا موڑ آنےسے بہت سے لوگوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور انہیں اس بات ادراک ہو گیا ہے کہ کیس اب کسی نتیجے پر پہنچ کے ختم ہو گا

پاکستان کے آئینی قانونی ماہر چوہدری افنان منور نے کیس پرقانونی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کا فیصلے میں وجوہات کا ذکر ضروری ہونا چاہیے تھا ۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ وجوہات جو بھی ہوں تمام ججز نے بالاتفاق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت کی جانب سے سپریم جیوڈیشل کونسل میں دائر کیا گیا ریفرنس خارج کردیا ہے ۔ جہاں تک جسٹس یحیٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ کا تعلق ہے وہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کے متعلق ہے جسے انھوں نے قبل از وقت قرار دیا۔ تاہم انھوں نے بار کونسل ، بار ایسوسی ایشنز اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی چودہ درخواستوں کو قابلِ سماعت مان کر باقی نو ججز کے ساتھ اس نتیجے پر اتفاق کیا ہے کہ ان درخواستوں کو تسلیم کرتے ہوئے جسٹس صاحب کے خلاف کونسل میں دائر شدہ ریفرنس خارج کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر انھوں نے صرف یہ کہا ہے کہ جسٹس صاحب کی درخواست کی ضرورت نہیں تھی۔ باقی انھیں بھی اتفاق ہے کہ ریفرنس غلط تھا۔
جہاں تک لندن میں موجود پراپرٹی کا تعلق ہے تو سات جج صاحبان نے ایف بی آر کو حکم دیا کہ اگر اس اس پراپرٹی کے متعلق ٹیکس کا کوئی معاملہ ہے تو وہ جج صاحب کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو نوٹس دے، ان سے ذرائع آمدن پوچھے، ان سے وضاحت طلب کرے، اور اگر اس کی روشنی میں جج صاحب کے خلاف کوئی سوال اٹھتا ہے تو وہ سپریم جیوڈیشل کونسل کو اطلاع دے اور حکومت کی یہ بات عدالت نے مسترد کردی ہے کہ بیوی اور بچوں کی پراپرٹی اپنے کاغذات میں نہ دکھا کر جج صاحب نے کوئی مس کنڈکٹ کیا ہے۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی اب تک کی کارگردگی اور پھرتیاں یکسر مسترد کرکے دوبارہ حکومت پر بارِ ثبوت ڈال دیا ہے کہ وہ دکھائے کہ جج صاحب کی بیوی اور بچوں کی اس جائیداد کی وجہ سے جج صاحب کے خلاف کوئی کیس کس طرح بنتا ہے؟ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ حکومت اب جاسوسی اور غیر قانونی طریقے اختیار نہیں کرسکے گی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ان سات جج صاحبان نے انتہائی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد کا معاملہ سپریم جیوڈیشل کونسل میں جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس سے الگ ہے، یعنی اگر اہلیہ یا بچوں کے خلاف ٹیکس کے قانون کی رو سے کوئی کارروائی ممکن بھی ہوجائے تو اس کا لازماً مطلب یہ نہیں ہوگا کہ جج صاحب اس کےلیے ذمہ دار ہیں۔ یہ اس حکم نامے کا دوسرا اہم ترین نکتہ تھاجسے بہت سے ٹی وی اینکرز اور مبصرین نہیں سمجھ سکے۔

انہوں نے کہا کہ جن تین جج صاحبان نے الگ نوٹ لکھا ہے ، اسے بھی بہت سے لوگ سمجھ نہیں سکے ۔ اسے سمجھنے کےلیے تین الگ اجزا پر غور کریں:

الف۔ ان تین جج صاحبان نے دیگر سات جج صاحبان کے ساتھ اس پر اتفاق کیا ہے کہ جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس خارج کیا جائے؛

ب۔ ان میں سے دو جج صاحبان نے جسٹس صاحب کی درخواست کو بھی قابلِ سماعت قرار دیا جبکہ ایک جج صاحب نے اسے قبل از وقت سمجھا لیکن ، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، انھوں نے دیگر درخواستوں کو قابلِ سماعت مانا ہے۔ اس لیے نتیجے پر کوئی اختلاف نہیں ہوا۔

ج۔ ان تین جج صاحبان نے اپنے نوٹ میں ریفرنس کے خاتمے کے بعد جسٹس صاحب کی اہلیہ اور بچوں کی جائیداد کے متعلق معاملے کو ایف بی آر کی طرف بھیجنے کے متعلق کچھ نہیں لکھا ۔ اس معاملے پر خاموشی اختیار کرکے اور پہلے سات جج صاحبان کے حکم نامے کے اس حصے سے اتفاق نہ کرکے انھوں نے گویا یہ معاملہ حکومت اور متعلقہ اداروں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جانیں اور ان کا کام۔ بہ الفاظِ دیگر، انھوں نے کہا ہے کہ اس معاملے کا ہمارے سامنے موجود مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس صاحب کی اہلیہ اور ان کے بچے اس مقدمےمیں سرے سے فریق ہی نہیں تھے۔ اس لحاظ سے مجھے ان تین جج صاحبان کی راے درست معلوم ہوتی ہے۔ تاہم پہلے سات جج صاحبان کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب معاملہ ہمارے سامنے آ ہی چکا تو اب اسے منطقی انجام تک پہنچادیا جائے چنانچہ انھوں نے ایف بی آر کے چیئرمین پر ذاتی ذمہ داری ڈال دی اور دیگر اہم قیود بھی ذکر کیں۔

حکم نامے کے ان تین حصوں کو سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ریفرنس غلط کیوں تھااور اسے کیوں خارج کیا گیا؟ اس اہم سوال کا جواب تفصیلی فیصلے میں ہی ملے گا جہاں جج صاحبان فیصلے کی وجوہات ذکر کرتے ہوئے بتائیں گے کہ کیا یہ ریفرنس قبل از وقت تھا؟ یعنی ابھی حکومت نے ایسے شواہد اکٹھے نہیں کیے تھے جن کی بنا پر جج صاحب کے خلاف ریفرنس بنتا لیکن اس نے جلدی میں بنا لیا؟ یا یہ ریفرنس بنایا ہی گیا بدنیتی پر تھا

|Pak Destiny|

2 Comments

  1. Naveed Ijaz Butt Reply
  2. Muhammad Zafar Iqbal Reply

Leave a Reply