معصوم عوام

innocent nation of pakistan masoom awaam
-ازعمارہ خانم-

نہایت افسوس کی بات ہے کہ ایک نا اہل سابق حکمران کا استقبال کرنے کے لییٔ عوام گھروں سے نکلی۔ چاہے لاکھوں کی بجاے ٔ چند ہزار بھی آے ٔ تو ان کی معصومیت پر رشک آتا ہے۔ کاش کہ ہم اپنی تقدیر سنوارنے کے لییٔ اپنی جاہلیت، سادہ لوحی ، برادری سسٹم اورپیری مُریدی سے نکلیں اور ایمانداری سے ووٹ کا استعمال کریںتاکہ قوم کو قرضوں کے چُنگل اور کھاؤ پیو مافیا سے نجات مل سکے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لییٔ ایک روشن مستقبل کی نوید بن سکے۔
کاش ہماری عوام استقبال کی بجاے ٔ اُنہیں اپنے تیٔں آنے دیتی اور اُن کی اپیلوں پر کان نہ دھرتی تو یہ پیغام دو گناہ ہو کر آگے جاتا۔ ایک تو یہ کہ بے ایمان لوگ یہ سمجھ جاتے کہ اب عوام اتنی با شعور ہو گیٔ ہے کہ انہیں اس چیز کا علم ہو چکا ہے کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے اور دوسرا یہ کہ ان بے ایمان لوگوں کے دل میں یہ بات نقش کر جاتی کہ اب قانون کا سامنا اور مُحاسبہ سچایٔ کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ہمارے سیاستدان ہماری انہی نا اہلیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوے ٔ پوطر ثابت ہو جاتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اس وقت ہربے ایمان سیاستدان کے ہوش اُڑ ہوے ٔ ہیں پھر بھی کمال ڈھٹایٔ سے ہر مخالف جملہ یعنی ذیادتی کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کاش کہ یہ حکمران ایمانداری اور سچایٔ کے ساتھاپنے آپ کو احتساب کے لییٔ پیش کر کے دنیا میں ایک بہترین مثال بنیںاور ہمارا سر بھی کبھی فخر سے بلند ہو کہ اب ہمارے سیاستداب بھی اچھے اور سچے کردار کے مالک ہیں۔۔۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟
اب حالات پہلے سے کافی الگ نظر آتے ہیں۔ لندن میں ایون فیلڈ کے باہر جو کچھ ہو رہا ہے ، لوگ چور چور کے نعرے لگاتے دکھایٔ دے رہے ہیں اور خو ب بدنامی ہو رہی ہے۔ ہم اس چیز کے حمایتی تو ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی نظریں نہیں چُرا سکتے کہ جو ہوا کیا یہ قانونِ قدرت کے خلاف نہیںہوا؟ انسان ایک غیر قدرتی فعل کرے اور پھر سوچے کہ اس کا نتیجہ قدرتی ہو گا تو یہ سوچ کسی بیوقوفی سے کم نہیں۔ حساب تو ہر ذِی روح نے دینا ہے خواہ دنیا میں یا آخرت میں ۔ اگر ہم اس بات کو سمجھ جائیں تو شائد اپنی چیرہ دستیوں سے باز آ جائیں۔
حالت اب کچھ ایسی ہے کہ چہروں کا رنگ تو اُڑا ہوا ہے لیکن اس پرشرم کا کویٔ احساس نظر نہیں آتا۔ اپنے ساتھ صحافی حضرات تو یوں لاے ٔ گیٔ کہ جیسے کویٔ بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے کر آ رہے ہوں اور شائد اس یقین کے بھی ساتھ کہ ان کے ساتھ مستقبل میں کچھ ہونے والا نہیں جیسا کہ اس سے پہلے ہوتا رہا۔ پشاور سانحہ ہوا، بنوں سانحہ ہوا اور پھر مستونگ جس میں پشاور اور مستونگ کے کیٔ اُمیدوار مارے گیٔ
اورتینوں جگہوں پر بیسیوں سپورٹرز زخمی ہوے ٔ ، لیکن ان کی آنکھوں پر پردہ اس حد تک ہے کہ بلکل بھی پروہ نہیں کہ پھر سے کویٔ ایسا واقعہ رونما نہ ہو جاے ٔ جس سے قوم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔خُدا کا شکر ہے کہ اس دوران ایسا کویٔ دل دہلا دینے والا واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ خُدا نخواستہ اگر ایسا کویٔ واقعہ رونما ہع جاتا تو کیانا اہل صاحب اس کی ذمیداری قبول کرتے؟
جس قدر ہنگامہ برپا کیا گیا ہے اگر دل میں وطن کے لییٔ ذرا سی بھی محبت ہوتی تونا اہل حکمران کی طرف سے ایسا تماشا نہیں لگایا جاتابلکہ وہ خود خاموشی سے قانون کے آگے سر جھکا لیتے تو شائد اس عمل میں ان کی کچھ عزت بھی باقی رہ جاتی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب بھی احتساب کی باری آیٔ تو تمام سیاستدان آپس میں یک جان ہو گیٔ اور مُحاسبے کی تمام کوششوں کو ناکام کرتے نظر آے ٔ ۔ اس بُرایٔ میں ان کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے ان بے شرموں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور اپنا نام کتابِ رسوایٔ میں لکھوا دیا۔ پر اب جب یہ سلسلہ چل پرا ہے تو رکنا نہیں چاہییٔ۔ اس فہرست میں ان گنت بے ایمان لوگوں کے نام آتے ہیں۔ دُعائیں اُن شخصیات اور اُن اداروں کے لییٔ جنہوں نے اس مُلک کو اب صہی راہ پر چلانے کی ذمیداری امنے کندھوں پر اُٹھایٔ اور جہاد کیا ہے۔ کاش پہلے کبھی مصلحتوں کا سہارانہ لیا جاتا تو میرا پاک وطن کب کا ان غلیظ عادات اور اداروں کے پاپیوں سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہوتا۔ پر بے شک وہ اُپر بیٹھی ذات بہتر کرنے والی ہے۔
آخر میں ایک گزارش اُن لوگوں سے جن کی گنتی کچھ زیادہ ہی جذباتی قسم کی عوام میں آتی ہے۔ ۔ ۔ جرم کی سزا دینے کے لیے قانون موجود ہے اور کسی کی بھی سزا طے کرنے کا حق آپ کو یا مجھے بلکل حاصل نہیں۔ اس لیے جو لوگ قتل و غارت، ہاتھا پایٔ اور گالی گلوچ پر یقین رکھتے ہیں اُ نہیں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ سوچ بلکل غلط اور انسانیت کے خلاف ہے ۔ حکمران چور صہی چاہے وہ جو بھی ہو، آپ اُس کے سپورٹر ہیں یا نہیں لیکن یہ ضرور یاد رکھییٔ کہ وہ بھی کسی کا بیٹا ، کسی کا باپ ہو گا۔ عوام کے غصے کو جائز کہہ سکتے ہیں لیکن غصے کا اظہار تمیز اور اپنی حدود کے دائرے میں رہ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور ایک چیزہمیشہ یاد رکھییٔ کہ اس بات کا ذکر تو قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔۔۔ اس لیے پہلے ضرورت ہے عوام کے ٹھیک ہونے اور صہح اور غلط میں فرق سیکھنے کی اور یوں حکمران بھی خود بہ خود ٹھیک آ جائیں گے۔ تو پھر 25جولایٔ 2018کو اپنے گھروں سے نکلییٔ اور اپنے ووٹ کا صہح استعمال کیجیے ٔ اور جسے آپ اتنا سمجھدار اور ذمیدار سمجھتے ہیں کہ وہ اگلے پانچ سال کے لیے مُلک کی بھگ دوڑ کو ذمیداری، وفاداری اور سنجیدگی کے ساتھ سنبھال سکتا ہے ، اُسے چُنیٔ۔
دعا ہمیشہ سے ایک ہی ۔۔۔ خُدا ہمارے پیارے مُلک کو ہر پل اور ہر لمحہ اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔ (آمین!)

7 Comments

  1. aqsa Reply
  2. ch bilal Reply
  3. tyba Reply
  4. Jeni Reply
  5. Hussain Reply
  6. Anam fiaz Reply
  7. Zafar bhatti Reply

Leave a Reply