“ماہِ رمضان۔۔۔ رحمت یا زحمت”

– از عمارہ خانم –

خیرسے رمضان کا مُبارک مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ پھر آنے والے سال میں ، میں یا آپ ہوں نہ ہوں لیکن یہ مُبارک مہینہ اپنی رحمتوں کے ساتھ لوٹ کر ضرورآے ٔ گا۔
ؒؒلیکن اس مُبارک مہینے میں بھی کچھ ایسی چیزیں ہوتی نظر آتی ہیں جنہیں پورا سال نہ سہی لیکن کم ازکم اس ایک ماہ کے لے ٔ تو رُک جانا چاہیٔ، لیکن شایدہماراضمیر اس قدر سو چکا ہے کہ اسے جگانا اب مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سا ہو گیاہے۔

بات کرتے ہیں کچھ حقیقی نکات پر جو تھوڑے کڑوے بھی ہو سکتے ہیں۔
حالات کچھ اس قسم کے ہیں کہ دنیا بھر میں کویٔ بھی تہوار آتا ہے تو وہاں چیزیں سستی کر دی جاتی ہیںاور ہر وہ ممکن کوشش کی جاتی ہے جو لوگوں کے لے ٔآسانی کا باعث بن سکے ۔ جیسے کہ کرسمس کے موقع پر 70فیصدتک سیل کا لگنا اور مقصد صرف ایک کہ ہر کویٔ تہوار کو بھرپور طریقے سے منا سکے۔ لیکن ہمارے یہاں کچھ ایسا ہے کہ باقی تہوار تو چھوڑہیٔ، ابھی رمضان شروع ہونے کی ہی دیر ہوتی ہے کہ اُس سے ہفتہ پہلے ہی منظر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ بازار میں ملنے والی ہر چیز کی قیمت جیسے آسمان کو چھورہی ہو، خاص کر کے وہ چیزیں جن کے حوالے سے معلوم ہو کہ ان کا استعمال اب زیادہ اور ضروری ہونے والا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اصل میں تو رمضان مسلمانوں کا تہوار جانا جا تا ہے لیکن اس کی اہمیت کودوسرے شاید ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ یہاں قیمتیں بڑھتی ہیں اور دوسری طرف بیرونی ممالک میںقیمتوں میں خاصی کمی کر دی جاتی ہے۔ شاید خیال یہ ہے کہ اس ماہ پاکستان میں موجود مسلمانوں کی کوی ٔ بھاری لوٹری نکل آتی ہے۔
یہ تو بات ہویٔ مہنگایٗ کی ۔ اب آ جاتے ہیں بجلی کے موضوع پر۔
حکو مت کے بجلی کے حوالے سے کییٔ گیٔ وعدے تو سب کو یاد ہی ہونگے۔ بیشک کافی وقت تک اس پر عمل بھی ہوتا نظر آیا، لیکن یہاں بھی عجیب بات یہ ہے کہ بجلی عین اُسی وقت گل ہونے لگی جیسے ہی رمضان کا مہینہ شروع ہوا۔ ٹھیک سحرو افطار کے وقت تو بجلی کا جانا لازم ہو جیسے۔ یہ بات سمجھنا تھوڑا مشکل ہے کہ آخر رمضان جیسے پاک اور مبارک مہینے میں ہی ایسی مہربانی کیوں؟
وہ محاورا تو سب نے سنا ہو گا کہ دنیا چاند پر پہنچ گیٔ اور ہم آج بھی پاک بھارت فساد میں اُلجھے ہوے ٔ ہیں۔ بلکل ایسا ہی ہے ، دنیا ترقی کر رہی ہے اورہم وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجاے ٔ اور پیچھے جاتے جا رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ کس وقت میں کیا کرنا چاہیٔ اور کیا نہیں۔ ہماری سوچ وہاں تک جاتی ہی نہیں کہ جس سے کسی کا کچھ بھلا ہو سکے۔ ہم ایسی قوم بنتے چلے جا رہے ہیں کہ جس چیز میں اپنا مُفا د نظر آے ٔ اُسی طرف کھچے چلے جاتے ہیںبغیر اس پرغو ر وفکر کیٔ یا اس کا نتیجہ سوچے سمجھے۔ لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ بیرونی لڑایٔ جھگڑوںسے پہلے اپنے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دی جاے ٔ۔
“Do Good for Others, It will Come Back to You in Different Ways”
یہ پڑھنے میں ایک چھوٹاسا قول ہے، لیکن اس میں چھُپی گہرای ٔ اور سبق کو سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے۔
اگر صرف اپنا مفاد سوچا جایگا تو اس میں صرف اپنی ہی ذات مستفید ہو گی، لیکن اگر سب کے لے ٔ سوچا جاے ٔ تواس سے اپنے مُلک کا بھی فائدہ ہو گا۔ تو پھر آپ کے خیال میں کس کے لیٔ سوچنا چاہیٔ؟
اب لوڈ شیڈنگ کی مزید کیا ہی بات کی جاے ٔ کیونکہ اس پر تو بقول حکومت کام ہو رہا ہے لیکن کب تک مکمل ہو گا ۔۔۔ پتا نہیں۔
لیکن جو حال مہنگایٔ کا ہے اور وہ بھی اس پاک مہینے میں۔ خدا کی پناہ!
کیا رمضان غریبوں کے لیٔ نہیں؟ اگر مہنگایٔ کایہی عالم رہا تووہ عوام جن کے پاس رہنے کو چھت اور پہننے کو کپڑے بھی مشکل سے ہیں تو پھر سحرو افطار کے لیٔ ہاتھ میں مناسب رقم ہونا تو بہت دور کی با ت ہے۔
لیکن کیوں نہیں اس پر کویٔ سوچنے والا؟ آخر کب تک ایسے ہی چلے گا اور اس سب کا خاتمہ کبھی ہو گا بھی کہ نہیں؟

ا ﷲ رحم کرے ہمارے مُلک پر! (آمین)

Leave a Reply